
عمران خان کے بیانیے کا ڈراپ سین؟
روایت ہے کہ مولانا روم سے کسی نے پوچھا کہ دیوانے کی سب سے بڑی پہچان کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اسے محبوب کا کوئی عیب دکھائی نہیں دیتا۔ ترک کہاوت ہے کہ جہالت، اندھی تقلید اور شخصیت پرستی کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ تینوں کیفیات گہری نیند کی طرح ہوتی ہیں اور جگانے والے پر غصہ آتا ہے۔ جہالت نہ سہی مگر اندھی تقلید اور شخصیت پرستی کے خمار میں ہماری قوم نجانے کب سے مبتلا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب زیادہ تر لوگ ذوالفقار علی بھٹو، میاںنواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت کے سحر میں مبتلا تھے اور کچھ مطلق العنان حکمرانوں کے دیوانے بھی تھے مگر جب سے وقت نے کروٹ لی ہے‘ لوگ عمران خان کی شخصیت سے متاثر ہیں اور ان کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پوری قوم مگر بڑی تعداد کے دِلوں میں عمران خان دھڑکتے ہیں۔ وہ جو بیانیہ تشکیل دیتے ہیں‘ ان کے پیروکار من و عن اسے تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جنہیں چور، ڈاکو یا غدار کا لقب دیتے ہیں‘ لوگ انہیں ویسا ہی ماننے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے ان کے فالورز کے پاس سچ اور جھوٹ کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ ہے نہ غلط اور صحیح کو الگ الگ کرنے کا کوئی کلیہ۔ یہ خان صاحب کے ہر بیانیے کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور غلط ہونے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے۔
گزشتہ پانچ ماہ سے عمران خان کی سیاست بامِ عروج پر ہے۔ وہ جو کہتے ہیں‘ لوگ اسے شرفِ قبولیت بخشتے ہیں۔ وہ مہینے میں چار بیانیے بنائیں یا آٹھ‘ ان کے چاہنے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کی آڈیو منظر عام پر آئے یا وڈیو‘ وہ ملک کے مفاد میں بات کریں یا اپنی سیاست چمکانے کی منصوبہ بندی کرتے سنائی دیں‘ جنہیں خان صاحب سے عقیدت ہے وہ کوئی نہ کوئی جواز گھڑ ہی لیتے ہیں۔ جب سے آڈیو لیکس کا معاملہ شروع ہوا ہے‘ پوری قوم پر ایک انجانا خوف طاری ہے۔ اگر وزیراعظم ہاؤس ہی محفوظ نہیں ہے تو ملک کے باقی سرکاری اداروں کا کیا حال ہوگا؟ اگر پی ایم ہاؤس میں ہونے والے اجلاسوں کی........
© Roznama Dunya


