
نوجوانوں کی ذہنی خرابی
سقراط عجیب درویش منش انسان تھا۔ یونان کی سنہری ریاست ایتھنز کی آزاد فضائوں میں لمبے بالوں‘ مخصوص لباس اور بغیر جوتی کے گھوما کرتا تھا۔ راہ ملتے لوگوںکو روک کر سوال کرتا اور جواب میں کئی اور سوال کردیتا۔ خود ایک حرف نہیں لکھا مگر ہم اسے مغربی فلسفے کا بانی سمجھتے ہیں۔ مغرب کی جامعات میں سیاست کی ابتدا یونان کے عظیم فلسفیوں کے فن پاروں سے ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی پرانی روایت ہے۔ اسلامی تہذیب کے مدارس میں یونانی فلسفے اور تاریخ کو کھنگالا گیا‘ عربی میں تراجم ہوئے اور اس قدیم ورثے کو مغربی دانش گاہوں سمیت ساری دنیا میں پھیلایا گیا۔ آج بھی یونانی فلسفیوں اور ادب کے شہ پاروں کو پڑھتے ہیں تو دل خوش ہو جاتا ہے۔ میں سقراط کی طرف واپس آتا ہوں۔ وہ مدرس‘ معلم اور استاد تھا اور اپنے علم کا خزانہ مفت‘ راہ چلتے لٹایا کرتا تھا۔ شاگردوں کا ایک ٹولہ اور دیگر افراد اس کے گرد جمع ہو جاتے کہ علم و عقل کے موتی کچھ ان کی جھولی میں آجائیں۔ افلاطون ان کے خاص شاگردوں میں سے تھے جنہوں نے سقراط کی گفتگو کو اپنے مکالموں میں محفوظ کیا۔ سقراط کے خلاف مقدمہ‘ عدالتی کارروائی اور سزائے موت دو ہزار چار سو اکیس برس گزرنے کے بعد بھی سیاسی‘ سماجی علوم اور فلسفے کا موضوع ہے۔ مقصد بات کرنے کا کچھ اور ہے اس لیے میں آپ کو ان کے فلسفے میں نہیں الجھانا چاہتا۔ دو شہری ان کے خلاف عدالت میں الزامات لے کر آئے۔ الزامات یہ تھے کہ وہ خداوندانِ شہر کو نہیں مانتا اور نوجوانوں کو خراب کر رہا ہے۔ خرابی یہ تھی کہ وہ ہر مروجہ سچائی کے معیار اور حقیقت کے بارے میں ان کو سوال کرنے کی تربیت دیتا تھا۔ آج ہم اسے تنقیدی فکر کہتے ہیں جو میرے نزدیک تعلیم کا بنیادی مقصد ہے۔ فکر اور تخلیق کے سوتے تنقیدی سوال اٹھانے........
© Roznama Dunya


