
پولیس کا کیا قصور؟
باغ کو اجاڑنے میں باغبان کا کردار ہو تو دکھ زیادہ ہوتا ہے۔ گھر کو آگ گھر کے چراغ سے لگ جائے تو تکلیف کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ تیر چلانے والا کوئی اپنا ہو تو گھاؤ اور گہرا ہو جاتا ہے۔ جو روشنیوں کے دعوے دار ہوتے ہیں‘ وہی تاریکی کے موجد بن جائیں تو آنسوؤں کی جھڑی رکنے میں نہیں آتی۔ کہاں گیا پولیس کو غیر سیاسی کرنے کا خواب؟ کیا ہوئی تھانہ کلچر میں تبدیلی کی آرزو؟ کدھر گیا پولیس کے نظام میں اصلاحات کرنے کاعزم؟ داغ دہلوی کا شعر ملاحظہ ہو:
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاست تو پہلے ہی تھانہ کچہری کے گرد گھومتی تھی مگرتحریک انصاف کو کیا ہوا؟ پھولوں کا کاروبار کرتے کرتے کانٹوں کے بیوپاری کیسے بن گئے؟ جب سے پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت تبدیل ہوئی ہے پنجاب پولیس ہر روز کسی نئے امتحان سے دوچار ہوتی ہے۔ کبھی ایک آزمائش تو کبھی دوسری۔ کبھی کوئی الزام اور کبھی کوئی۔ کہیں مسلم لیگ (ن) کے ساتھی کا لقب اور کہیں تحریک انصاف کے دشمن کا خطاب۔ پولیس ہے یا حکمرانوں کی نجی فورس۔ کبھی کوئی اپنے زیرِ اثر لانے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی کوئی اسے دھمکانے لگتا ہے۔ پولیس سیاست دانوں کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنتی ہے تو پھر پھنستی ہے اور اگر انکار کرتی ہے تو بھی سزا پاتی ہے۔ آخر پنجاب پولیس جائے تو جائے کہاں؟ سی سی پی او لاہور کا معاملہ سیاسی مداخلت کی کلاسیکل مثال ہے۔ انہیں پنجاب حکومت کا حکم ملتا ہے کہ مذہبی انتشار پھیلانے کے الزام میں وفاقی وزرا میاں جاوید لطیف اور مریم اورنگ زیب کے خلاف پرچہ درج کریں۔ سی سی پی او صاحب کے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ پنجاب حکومت کی بات مان لیں اور دوسرا ایف آئی آر کاٹنے سے انکار کر دیں اور عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ سی سی پی او نے پہلا راستہ اختیار کیا اور........
© Roznama Dunya


