ایسا ماحول پہلے کب تھا کہ جدھر دیکھو، پریشانیاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، خوف کے گھیرے ہیں، دلوں میں ڈر ہے، کل کیا ہو گا، یہ سوچ کر ہر ایک گھبراتا ہے

پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں

پریشانیوں کی فراوانیاں ہیں

لیکن ظاہر ہے، یہ ماجرا ملک کے بھاری اکثریتی عوام کا ہے۔ اشرافیہ تو بدستور مزے میں ہے بلکہ پہلے سے زیادہ مزے میں ہے۔ تازہ خبر ہے کہ ڈالر نے ایسی چھلانگ ماری کہ 241 کا ہندسہ پار کر گیا۔ مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ برداشت سے بات آگے نکل گئی اور ابھی یہ مزید بڑھے گی، شاید دوگنی ہو جائے ۔ حالات بُرے ہیں، اس سے بھی بُرے ہونے والے ہیں۔ عوام کو اپنی ، عمران خان کو اپنی پڑی ہے۔ کل انہوں نے جو پریس کانفرنس کی، اس کا عنوان ’’ڈر‘‘ تھا۔ کہا گرفتاری سے نہیں ڈرتا لیکن لوگوں نے جو سنا وہ کچھ یوں تھا کہ مجھے بچا لو، جیل سے بہت ڈر لگتا ہے۔ کارکنوں سے کہا گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پہنچیں، خان کی گرفتاری کے راستے میں دیوار بن جائیں۔ کارکن پہنچے لیکن بہت زیادہ نہیں۔ اتنوں سے دیوار نہیں بنتی، فٹ پاتھ البتہ بنایا جا سکتا ہے۔ تقریر میں کہی گئی باتیں پہلے بھی کہی جا چکی ہیں لیکن پہلے بھی جو کہا جاتا رہا ہے، وہ اس تقریر میں سب کی سب نہیں کہی گئیں۔ گویا یہ ایک نئی بات ہے جو ہوئی ہے، یہ کہ پہلے کی باتیں، ہر بار کی جانے والی کئی باتیں اس بار نہیں کہی گئیں۔ نہ سری لنکا بنانے کی دھمکی، نہ ملک ہاتھ سے نکل جائے گا والا انتباہ، نہ ملک کے تین ٹکڑے ہونے کی سنائونی، یہاں تک کہ اس بار کال بھی نہیں دی گئی۔ شاید اس لیے کہ پچھلے دو دنوں میں تین بار جو کال دی گئی، وہ عوام کی توجہ نہیں پا سکی۔ فواد چودھری کی گرفتاری کے بعد سے پارٹی کے بہت سے لیڈر بھی ڈرے ڈرے سے ہیں

ہم جنس پرستوں کا چرچ میں خیر مقدم کریں گے: پوپ فرانسس

جیل سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

کچھ ایسی ہی سوچ سب کے دل میں ہے۔ دور کے اندیشے اب نزدیک لگ رہے ہیں۔ سُنا ہے ایک ’’بڑے‘‘ نے جو کل دو بار خان صاحب سے ملاقات کی تو یہ شکوہ بھی کیا کہ کہا تھا ناں کہ اسمبلیاں مت توڑو۔ مان لیتے تو اچھا ہوتا، نہیں مان کر اچھا نہیں کیا۔ ایسا خود پارٹی کے لوگوں نے کچھ صحافیوں کو بتایا ہے، ہو سکتا ہے غلط بتایا ہو، ہو سکتا ہے ’’بڑے‘‘ نے کہا ہو، ڈٹ جائو، چڑھ جا بیٹا…بھلی کرے گا تو خیر نہیں کہا ہو گا۔ کچھ رہنما ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا، وہ کچھ اور ہی سہانے خیالوں میں گم ہیں۔

چین میں کورونا سے اموات میں 80 فیصد تک کمی

سردی زوروں پر ہے لیکن کل ملا کر مہینے بھر میں ٹل جائے گی۔ خان صاحب کے لیے البتہ موسم سرما بہت لمبا چلے گا۔ ان کے ایک ’’عقیدت مند‘‘ بریگیڈئر اعجاز شاہ نے کل ہی کہا ہے کہ پارٹی ابھی تو شروع ہوئی ہے۔ لفظ پارٹی کی جگہ ’’سردی‘‘ رکھ لیں۔ اور تھوڑی سی ترمیم یہ کر لیں کہ ’’پارٹی‘‘ ابھی شروع نہیں ہوئی، ابھی تو شروع ہونے والی ہے۔

_____________

کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے بارے میں تفصیلی اعداد و شمار سامنے آ گئے ہیں اور ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو لگ بھگ کل ووٹوں کا نصف ملے یعنی 49 فیصد اور اس 49 فیصد کے عوض اسے 88 سیٹیں ملیں جبکہ پیپلز پارٹی کو ایک تہائی سے بھی کم ووٹ یعنی محض 28 فیصد ووٹ ملے لیکن اس کی سیٹیں 91 ہیں۔ یعنی نسبت تناسب کے اعتبار سے اسے کم از کم 20 سیٹیں زیادہ ملیں یا جماعت کو اتنی بھی تعداد میں کم ملیں۔ گویا جماعت اگر فریادی ہے تو اس میں حق بجانب ہے لیکن کیا کیجئے، ایسی ہی باتیں جمہوریت کا حسن ہیں۔

معروف اداکارہ روحی بانوکی چوتھی برسی آج منائی گئی

اس سے ملتا جلتا ماجرا آزاد کشمیر کے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھی ہوا تھا۔ اس میں پی ٹی آئی نے سوا چھ لاکھ ووٹ کے عوض 30 سیٹیں حاصل کیں جبکہ مسلم لیگ نواز نے 5 لاکھ ووٹ لے کر محض چھ سیٹیں لیں۔ کمال کا فرق تھا۔ محض ایک لاکھ ووٹ کم اور سیٹیں 26 عدد کم ہو گئیں۔ یہ بھی جمہوریت کا حسن تھا اگرچہ یہ جمہوریت کا تبدیلی زدہ ایڈیشن تھا۔ اور یاد رہے، تب چشمہ ’’فیض‘‘ رواں دواں تھا۔

_____________

کراچی میں شروع ہی سے عوامی سطح پر جماعت اسلامی کی گرفت مضبوط رہی جسے پس منظر میں متحدہ (تب مہاجر) قومی موومنٹ نے دھکیلا۔ بنیادی طور پر یہ ضیاء الحق مرحوم کا کارنامہ تھا جیلوں نے غوث علی شاہ کو خاص طور سے جماعت اسلامی کی بیخ کنی کے لیے مامور کیا تھا۔ غوث علی شاہ بعدازاں نواز شریف کے بھی پیارے ٹھہرے اگرچہ بعد میں دغا دے گئے۔ پرویز مشرف کے دور میں تو جماعت اسلامی کا ایسا ناطقہ بند کیا گیا کہ وہ تو گویا زیر زمین ہی چلی گئی۔ اب سیاست پر نئے ’’کنٹرول ٹاور‘‘ والوں نے ہاتھ ہٹایا ہے تو جماعت کو پھر سے زمین پر پائوں جمانے کا موقع مل گیا۔

چوہدری شجاعت کو مسلم لیگ ق کی صدارت سے ہٹا دیا گیا

یہ عجیب سا ماجرا ہے کہ کراچی (اور کسی حد تک حیدر آباد) نیز مالاکنڈ کے بعض اضلاع کے سوا جماعت اسلامی ملک بھر میں کہیں بھی عوامی بنیاد نہیں بنا سکی۔ لاہور جو شروع سے جماعت کا صدر دفتر رہا ہے، بھی اس باقی ملک میں شامل ہے۔

ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ عوامی سطح پر جماعت نے تین مقبول ترین شخصیات پیدا کیں اور تینوں کا تعلق کراچی سے ہے۔ یعنی چودھری غلام محمد، پروفیسر غفور اور نعمت اللہ خان۔ تینوں اب مرحومین میں شمار ہوتے ہیں۔ اب حافظ نعیم الرحمن کو چوتھا یا تقریباً چوتھا سمجھ لیجئے۔ کراچی میں ان کا قد کاٹھ بڑھتا جا رہا ہے۔

روس کے 30 سے زائد میزائل حملوں سے ایک شہری ہلاک، 15 حملے ناکام بنادیے، یوکرین

_____________

جماعت کا نظم و نسق مثالی ہے۔ اس پارٹی میں دھڑے بندی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا البتہ ’’خیال بندی‘‘ کا فرق موجود ہے۔ کراچی بالخصوص اور سندھ کی جماعت بالعموم جماعت کی کلاسیکی سوچ پر کاربند ہے یعنی جمہوریت کی مکمل پاسداری۔ باقی ملک کی جماعت کا رحجان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرز کی حمایت کی طرف رہتا ہے۔ میاں طفیل محمد مرحوم یحییٰ خاں اور ضیاء الحق کے مدّاح تھے تو قاضی حسین احمد پرویز مشرف کے۔ لیکن جماعت کا بھلا ان تینوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ مشرف نے تو کراچی کی جماعت سے گویا گن گن کر بدلے لئے۔ بہرحال، یہ بھی تاریخ کا ایک دور تھا جو گزر گیا۔ نئے بحران در بحران والے دور نے سیاست کے نئے اصول طے کرنے ہیں۔

_____________

QOSHE - لمبی سردیاں  - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists . News Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

لمبی سردیاں 

6 3 1
27.01.2023

ایسا ماحول پہلے کب تھا کہ جدھر دیکھو، پریشانیاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، خوف کے گھیرے ہیں، دلوں میں ڈر ہے، کل کیا ہو گا، یہ سوچ کر ہر ایک گھبراتا ہے

پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں

پریشانیوں کی فراوانیاں ہیں

لیکن ظاہر ہے، یہ ماجرا ملک کے بھاری اکثریتی عوام کا ہے۔ اشرافیہ تو بدستور مزے میں ہے بلکہ پہلے سے زیادہ مزے میں ہے۔ تازہ خبر ہے کہ ڈالر نے ایسی چھلانگ ماری کہ 241 کا ہندسہ پار کر گیا۔ مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ برداشت سے بات آگے نکل گئی اور ابھی یہ مزید بڑھے گی، شاید دوگنی ہو جائے ۔ حالات بُرے ہیں، اس سے بھی بُرے ہونے والے ہیں۔ عوام کو اپنی ، عمران خان کو اپنی پڑی ہے۔ کل انہوں نے جو پریس کانفرنس کی، اس کا عنوان ’’ڈر‘‘ تھا۔ کہا گرفتاری سے نہیں ڈرتا لیکن لوگوں نے جو سنا وہ کچھ یوں تھا کہ مجھے بچا لو، جیل سے بہت ڈر لگتا ہے۔ کارکنوں سے کہا گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پہنچیں، خان کی گرفتاری کے راستے میں دیوار بن جائیں۔ کارکن پہنچے لیکن بہت زیادہ نہیں۔ اتنوں سے دیوار نہیں بنتی، فٹ پاتھ البتہ بنایا جا سکتا ہے۔ تقریر میں کہی گئی باتیں پہلے بھی کہی جا چکی ہیں لیکن پہلے بھی جو کہا جاتا رہا ہے، وہ اس تقریر میں سب کی سب نہیں کہی گئیں۔ گویا یہ ایک نئی بات ہے جو ہوئی ہے، یہ کہ پہلے کی باتیں، ہر بار کی جانے والی کئی باتیں اس بار نہیں کہی گئیں۔ نہ سری لنکا بنانے کی دھمکی، نہ ملک ہاتھ سے نکل جائے گا والا انتباہ، نہ ملک کے تین ٹکڑے ہونے کی سنائونی، یہاں تک کہ اس بار کال بھی نہیں دی گئی۔ شاید اس لیے کہ پچھلے دو دنوں........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play