بجلی کا طویل ترین بریک ڈائون اس بحران کا دیباچہ بتایا جا رہا ہے جو سر پر کھڑا ہے، محض تکنیکی خرابی نہیں جو کسی کی لاپروائی سے ہوئی۔ حکومت کی بے چارگی تب بھی سامنے آئی جب وہ اسے جلد دور نہ کر سکی اور 24 گھنٹے لگ گئے۔ دیباچہ یہ توانائی کی قلّت کا ہے جو عمران حکومت کے دور میں سستے کے بجائے مہنگا ایندھن خریدنے، پھر ایندھن طلب کے مطابق نہ خریدنے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ بہرحال، اب یہ ڈھول اتحادی حکومت کے گلے میں ہے اور وہ اسے بجانے پرمجبور ہے۔ کچھ اسی قسم کا ڈھول جس کا ذکر بہت پہلے ’’سائو کے آدم خور‘‘ نامی واقعے میں آیا تھا، یہ کتاب عالمی کلاسیکل لٹریچر میں شامل ہے اور اس پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ صدی بھر پہلے یوگنڈا سے ایک ریل کی لائن انگریز لوگ کینیا تک بچھا رہے تھے۔ پندرہ بیس ہزار ہندوستانی مزدور لائے گئے تھے اور انہیں ایک کیمپ میں رکھا گیا تھا جس کا نام ’’سائو‘‘ تھا۔ آدم خور شیر ادھر آ نکلے اور اپنا ٹھکانہ کیمپ کے آس پاس لگا لیا۔ ہر روز ایک دو مزدورکھا جاتے۔ بہت مشکل سے اور کئی ماہ کی محنت کے بعد جان ہنری پیٹرسن نے آخر انہیں ٹھکانے لگایا۔
پی ٹی آئی والے استعفیٰ دے کر خجل خوار ہورہے ہیں، رانا ثناء اللّٰہ اس دوران بے شمار المناک واقعات ہوئے لیکن ایک مضحکہ خیز واقعہ بھی ہوا۔ کیمپ کا سودا سلف لانے والا ایک بنیاگدھے پر خالی ڈھول نما پیپا (کنستر) لادے قریبی شہر جا رہا تھا کہ راستے میں ایک آدم خور اس پر کود پڑا۔ بنیاڈر کے مارے گر گیا اور شیر کا ہاتھ اس رسے پر جا پڑا جس کے ساتھ ڈرم نما کنستر بندھا ہوا تھا۔ شیر نے ہاتھ جھٹکا تو پیپا واپس آیا اور اس کے گلے سے لٹک گیا اور کھڑکھڑ کر کے کھڑکنے لگا۔ شیر نے ایسی بلا کاھے کو دیکھی ہو گی جو اس کے گلے سے لپٹ جائے اور کھڑکھڑ کا شور بھی مچائے۔ وہ ڈر کے بھاگا تو کھڑکنے کی آواز بھی تیز ہو گئی، وہ مزید بھاگا اور بھاگتا ہی چلا گیا، ڈھول نما پیپا بدستور اس کے گلے میں بندھا رہا اور کھڑکھڑ کر کے بجتا ہی رہا۔
ملک بھر میں ساتویں مردم شماری یکم مارچ سے یکم اپریل تک ہو گی شہباز حکومت نے بھی ’’حملہ‘‘ تو خوب کیا لیکن معاشی بحران کا کھڑکھڑ کرتا ڈھول بھی اس کے گلے پڑ گیا۔ اب حکومت جتنا بھاگے، یہ ڈھول تو بجتا ہی رہے گا، اس کی کھڑ کھڑ اس کے کمزور اعصاب کو لرزتی رہے گی۔ کوئی تدبیر ابھی تک تو اس ڈھول سے نجات کی چلی نہیں، بہرحال امید پر دنیا قائم ہے۔
____________
معاشی بحران کی وجہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کے حالات اچھے تو کبھی نہیں تھے، جب سے سُنا ، یہی سُنا کہ حالات نازک ہیں۔ بدقسمتی والا اتفاق یہ ہے کہ اس بار سچ مچ نازک ہیں بلکہ بہت ہی نازک ہیں۔
امریکہ میں دو دن کے اندر فائرنگ کا ایک اور واقعہ، مزید 7 افراد ہلاک اور وجہ یہ ہے کہ عمران حکومت نے تین سال میں جتنے قرضے لیے وہ مساوی تھے ان قرضوں کے جو ماضی کے 72 برس میں لیے گئے۔ اب ان قرضوں کا سود ہی اتنا ہے کہ چکانے کے لیے حکومت کی پسلی نہیں۔ ایک ضمنی وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے آتے ہی ’’بے روزگاری پراجیکٹ‘‘نافذ کر دیا اور ملینز یعنی دسیوں لاکھ کے حساب سے لوگ ملازمتوں سے سبکدوش کر دئیے گئے یا ان کا روزگار ان سے چھین لیا۔ نتیجہ پیداوار میں کمی اور جرائم میں اضافہ ہوا، تاریخ میں پہلی بار یہ کارنامہ بھی عمران حکومت نے کیا کہ بہت سے اداروں نے نہ صرف یہ کہ ملازم فارغ کئے بلکہ جو باقی رہے، ان کی اجرت اور تنخواہ بھی کم کر دی۔
کرپشن کے الزامات ،یوکرین کے نائب وزیرِ دفاع نے استعفیٰ دیدیا اب ریاست پاکستان بھی انگلیاں منہ میں دابے صحرائے حیرت میں گم کھڑی ہے کہ یہ کیا کر دیا، اور یہ کہ اب کیا کریں۔
____________
خان صاحب نے اس بار تقریر میں نئی بات کہہ دی۔ کہا کہ عوامی رہنمائوں یعنی سیاستدانوں کے نام پر کراس یعنی کاٹا لگانے سے ملک کو نقصان ہوتا ہے۔
غالباً ان کا اشارہ 2014ء کی طرف ہے جب نواز شریف کے نام پر کاٹا لگا تھا اور پھر اشارہ 2017ء کی طرف ہے جب ان کے نام پر ڈبل کاٹا لگا تھا۔ اس کاٹے اور ڈبل کاٹے نے ملک کی معاش اور سماج دونوں کا بو کاٹا کر دیا تھا۔ خان صاحب نے طویل عرصے کے بعد ایک سچ بات کی۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں خان صاحب کو خدشہ ہے کہ ان کے اپنے نام پر بھی کاٹا لگ چکا ہے لیکن ان کا خیال درست نہیں، ابھی کاٹا نہیں لگا۔ یا فقرے کو یوں تبدیل کر لیجئے کہ کاٹا ابھی نہیں لگا، حالانکہ ان پر کئی مقدمات ہیں، توشہ خانے کا کیس ہے ، فارن فنڈنگ کا کیس ہے، سیتا وائٹ کا کیس ہے، وغیرہ وغیرہ اور کچھ مزید وغیرہ وغیرہ کا امکان بھی ہے۔ نواز شریف پر کوئی کیس نہیں تھا ۔ کیس کیا، الزام بھی نہیں تھا، جب ان کے نام پر تاحیات کاٹا لگایا گیا۔ کیس نہ الزام، محض ایک ’’اصول‘‘ کی دریافت پر انہیں عمر بھر کے لیے نااہل کیا تھا اور یہ اصول کسی بلیک لا ڈکشنری سے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور اصول یہ تھا کہ جو رقم وصول نہ کی جائے، وہ بھی اثاثہ ہوتی ہے۔ نواز شریف نے رقم وصول نہیں کی لیکن گوشوارے میں لکھنی چاہیے تھی لہٰذا تاحیات نااہل۔
بلیک لا ڈکشنری کے معنے بھی خوب ہیں۔ بظاہر اس کا نام لا ڈکشنری ہے جو کسی بلیک نامی نے لکھی یا چھاپی لیکن سلیس اردو میں اس کا ترجمہ ’’کالے قانون والی ڈکشنری‘‘ ہی کیا جائے گا۔
نواز شریف کو جس کالے قانون والی ڈکشنری نے نااہل کیا، وہ اب موجود نہیں ہے۔ آئوٹ آف سٹاک سمجھئے، لیکن عمران خان پر کیس موجود ہیں اور کیس بھی ایسے کہ پی ٹی آئی والے جب ان کا دفاع کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کیس ہے تو سچ لیکن ہے جھوٹ۔بہرحال خان صاحب، آپ پر اگر کاٹا لگا (جو ابھی لگا نہیں) تووہ کالے قانون والی ڈکشنری نہیں لگائے گی، پاکستان کے رائج الوقت قانون والی ڈکشنری ہی لگائے گی اور ان کیسوں کے نتیجے میں لگائے گی جو ہیں تو سچ لیکن جھوٹے ہیں۔
____________
پی ٹی آئی حکومت پر برس پڑی ہے۔ کہا ہے حکومت چن چن کر پنجاب میں اس کے مخالف افسروں کو تعینات کر رہی ہے۔
حکومت کے لیے بری بات۔ یاد نہیں، پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو کیسے اس نے چن چن کے ن لیگ کے حامی افسر لگائے تھے۔ اس کاصلہ اب وہ یوں تو نہ دے۔ اسے چاہیے کہ وہ بھی چن چن کر پی ٹی آئی کے حامی افسر لگائے۔
____________
پی ٹی آئی کے مزید /43 ارکان کے استعفے منظور ہونے کے بعد راجہ ریاض کی گدّی محفوظ ہو گئی ہے، مبارک ہو۔ پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ استعفے منظور کرنا خلافِ آئین ہے۔ یہ بات پی ٹی آئی کو پہلے بتانا چاہیے تھی، یوں کہتے کہ سپیکر صاحب، ہم استعفے دے رہے ہیں لیکن منظور مت کرنا۔ آئین کے خلاف ہو گا۔
____________
بجلی کا طویل ترین بریک ڈائون اس بحران کا دیباچہ بتایا جا رہا ہے جو سر پر کھڑا ہے، محض تکنیکی خرابی نہیں جو کسی کی لاپروائی سے ہوئی۔ حکومت کی بے چارگی تب بھی سامنے آئی جب وہ اسے جلد دور نہ کر سکی اور 24 گھنٹے لگ گئے۔ دیباچہ یہ توانائی کی قلّت کا ہے جو عمران حکومت کے دور میں سستے کے بجائے مہنگا ایندھن خریدنے، پھر ایندھن طلب کے مطابق نہ خریدنے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ بہرحال، اب یہ ڈھول اتحادی حکومت کے گلے میں ہے اور وہ اسے بجانے پرمجبور ہے۔ کچھ اسی قسم کا ڈھول جس کا ذکر بہت پہلے ’’سائو کے آدم خور‘‘ نامی واقعے میں آیا تھا، یہ کتاب عالمی کلاسیکل لٹریچر میں شامل ہے اور اس پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ صدی بھر پہلے یوگنڈا سے ایک ریل کی لائن انگریز لوگ کینیا تک بچھا رہے تھے۔ پندرہ بیس ہزار ہندوستانی مزدور لائے گئے تھے اور انہیں ایک کیمپ میں رکھا گیا تھا جس کا نام ’’سائو‘‘ تھا۔ آدم خور شیر ادھر آ نکلے اور اپنا ٹھکانہ کیمپ کے آس پاس لگا لیا۔ ہر روز ایک دو مزدورکھا جاتے۔ بہت مشکل سے اور کئی ماہ کی محنت کے بعد جان ہنری پیٹرسن نے آخر انہیں ٹھکانے لگایا۔
پی ٹی آئی والے استعفیٰ دے کر خجل خوار ہورہے ہیں، رانا ثناء اللّٰہ اس دوران بے شمار المناک واقعات ہوئے لیکن ایک مضحکہ خیز واقعہ بھی ہوا۔ کیمپ کا سودا سلف لانے والا ایک بنیاگدھے پر خالی ڈھول نما پیپا (کنستر) لادے قریبی شہر جا رہا تھا کہ راستے میں ایک آدم خور اس پر کود پڑا۔ بنیاڈر کے مارے گر گیا اور شیر کا ہاتھ اس رسے پر جا پڑا جس کے ساتھ ڈرم نما کنستر بندھا ہوا تھا۔ شیر نے ہاتھ جھٹکا تو پیپا واپس آیا اور اس کے........
© Nawa-i-Waqt
visit website