کل بے نظیر محترمہ کا یوم شہادت منایا گیا۔ بے نظیر صاحبہ جب جلاوطنی سے واپس آئیں اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا تو اس وقت ذمہ داروں نے انہیں سکیورٹی رسک قرار دیا لیکن وہ الیکشن جیت گئیں اور حکومت بنا لی جو اس وقت کی سیاسی محاذ آرائی کے باعث نہ چل سکی اور نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔ دونوں سیاسی گروہوں کی دشمنی بڑھتی رہی یہاں تک کہ مشرف نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔
آخری فیصلہ عدالت نہیں، وقت کرتا ہے اور وقت نے فیصلہ کیا کہ سکیورٹی رسک بے نظیر نہیں تھیں بلکہ وہ لوگ تھے جو بے نظیر کو سکیورٹی رسک کہتے تھے اور جو دونوں سیاسی قوتوں کو لڑا کر اپنا سکہ چلاتے تھے۔ مشرف کے آخری دنوں میں سیاسی قوتیں ’’راز‘‘ کی بات سمجھ گئیں اور میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر دئیے۔ فیصلہ ہوا کہ دونوں کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ چنانچہ بے نظیر کو شہید کر دیا گیا، ہزاروں کے مجمعے میں یہ قتل ہوا اور اتنے برس بعد بھی کوئی گواہ ہے نہ گواہی ۔ بے نظیر پر فائرنگ سے ذرا پہلے تھوڑی دور موجود نواز شریف پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا اور چند لوگ مارے گئے۔ نواز شریف بچ گئے۔ ان کی قسمت کا فیصلہ پھرپانامہ اقامہ واردات میں کیا گیا۔
پی ایس ایل 8 کیلئےپشاور زلمی نے نئی کٹ کی جھلک دکھا دی میثاقِ جمہوریت نہ ہوتا تو شاید بے نظیر آج بھی زندہ ہوتیں۔ اب اتنے تجربے ہو چکے کہ مزید گنجائش ہی نہیں رہی۔ کہا جا سکتا ہے کہ آج اگر جمہوریت پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط امکانات رکھتی ہے اور آئین کو ختم کر کے صدارتی سازش کامیاب ہونے کے خدشات کم ہو گئے ہیں تو اس میں بنیادی کریڈٹ بے نظیر کا ہے جو جان سے گئیں لیکن ملک کو ’’امکانات کا اجالا‘‘ دے گئیں۔ اس کے بعد کسی کا کریڈٹ ہے تو وہ نواز شریف کا ہے جنہوں نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگا کر ایک نتیجہ خیز تلاطم برپا کیا۔
عمران خان پنجاب اور کے پی میں انتخابات کروائیں، کیا تکلیف ہے؟مریم اورنگزیب اس ’’بیانیے‘‘ کو ناکام بنانے کے لیے خدمت کو عزت دو کا نعرہ میدان میں لایا گیا لیکن یہ نعرہ چلا نہ ہی خدمت ہی کچھ زیادہ نظر آ سکی۔ فاعتبروایااولی الابصار!
__________
بے نظیر بھٹو کی برسی پر بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کسی ’’کٹھ پتلی‘‘ کو وارننگ دی کہ وہ پارلیمنٹ میں آ جائے۔
کٹھ پتلی کا مگر ایک مسئلہ ہوا کرتا ہے۔ یہ کہ اسے حرکت میں آنے کیلئے ایک ’’ماسٹر‘‘ چاہیے۔ یعنی پپٹ ماسٹر۔ یہ ماسٹر ہی ہوتا ہے جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کٹھ پتلی نے کب کیا حرکت کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے۔ خود سے کٹھ پتلی میں فیصلے کی قوت ہوتی ہے نہ حرکت کی سکت۔ ہوا کی گردش سے اگر وہ حرکت کرے تو بھی بے سمت اور بے معنی ہوتی ہے۔ بس لڑھکتی رہتی ہے۔ خیر، اس بے سمت بے آہنگ حرکت میں بھی بعض لوگوں کو ’’انٹرٹینمنٹ‘‘ کا پہلو مل جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ان دنوں نظر آ رہا ہے۔ چنانچہ بلاول بھٹو کی یہ وارننگ جسے انہوں نے آخری کہا ہے، بے کار جائے گی۔ کٹھ پتلی بنا ماسٹر کے بھلا کیسے کچھ کر سکتی ہے، بس ٹامک ٹوئیاں ہی مار سکتی ہے۔
2023 برطانیہ کی تاریخ کا گرم ترین سال ہوگا، محکمہ موسمیات __________
وزیر اعظم نے نتائج دینے کے لیے مزید وقت مانگا ہے اور فرمایا ہے کہ آٹھ ماہ میں مسائل کا پہاڑ ختم نہیں ہو سکتا۔
کچھ نیم گرم خبریں جو اب گرم ہوتی جا رہی ہیں، یہ اشارہ دے رہی ہیں کہ حکومت اور اسمبلی کی مدت، آئین میں موجود کسی شق کے تحت ایک سال بڑھائی جا سکتی ہے، یعنی مدت اکتوبر 2023ء میں نہیں بلکہ اکتوبر 2024ء میں پوری ہو گی۔
چلیے، یہ تو دیکھنے والی بات ہے کہ کیا ہوتا ہے لیکن مسائل کے پہاڑ والی بات پر کچھ عرض معروضات ابھی سے کیا جا سکتا ہے یعنی یہ کہ حضور، مسائل کاپہاڑ ختم کرنے کو کس نے کہا؟ کسی نے نہیں کہا۔ کہا تو بس اتنا کہ سرکار پر پہاڑ جتنا ہے، اتنا ہی رہے ، اور اونچا نہ ہونے پائے لیکن آٹھ ماہ میں یہ تو لگ بھگ 30 فیصد اور اونچا ہو گیا۔
برطانوی خاتون کو 12 سال قبل لاپتہ ہونیوالا بیٹا واپس مل گیا __________
جب اسحاق ڈار بطور وزیر خزانہ آئے تو دو قسم کی رائے تھی۔ ایک یہ کہ عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملے گا۔ دوسری یہ کہ ریلیف تو نہیں ملے گا لیکن مہنگائی جتنی بڑھ چکی ، اسے وہیں پر روک دیا جائے گا۔ یعنی مہنگائی کم نہیں ہو گی لیکن مزید بھی نہیں ہو گی۔ لیکن ان 8 ماہ میں مہنگائی رکی نہیں، بڑھتی ہی رہی اور اب اس بڑھنے کی شرح 30 فیصد ہے۔
آٹھ ماہ میں یہ ہوا، مدت ایک سال تک بڑھا لیجیے لیکن کچھ گارنٹی تو دیجیے کہ کچھ بہتری ہو گی یا بنا گارنٹی کے مدت بڑھانے کا ارادہ ہے؟
__________
وزیر اعظم کا بحرین کے شاہ حمد بن آل خلیفہ سے ٹیلیفونک رابطہ پنجاب میں آٹا مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور یہ خالص وزیر اعلیٰ پنجاب کی مصروفیات کے باعث ہے۔ کم سے کم آٹا ایک ایسی شے ہے جس کی مہنگائی کا تعلق وفاقی حکومت سے نہیں اور خبر آئی ہے کہ آٹے کی مزید قلت ہو گی اور یہ مزید مہنگا ہو گا۔ مہنگا بھی اور کم یاب بھی۔
وجہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی مصروفیات ہیں۔ پچھلے دنوں خبر آئی کہ وزیر اعلیٰ نے خالی پڑی ہوئی زمینوں کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حق بحق دار رسید کی ذمہ دار نبھائی جانی ہے۔ ایک ’’ٹائیکون‘‘ کو پنڈی میں چار سو کنال اراضی جس کی مالیت ارب ہا ارب روپے ہے، دینے کی اطلاعات ہیں ۔اسمبلی توڑنے نہ توڑنے کے معاملے پر سنجیدہ غور فکر بھی جاری ہے۔ چنانچہ ایک طرف آٹا مسلسل مہنگا ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف جرائم کا طوفان بستیاں نگل رہا ہے۔
اسمبلی توڑنے نہ توڑنے کے ساتھ قاف لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مذاکرات کے لمبے دور چل رہے ہیں۔ ارے بھائی ، کیسی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ادھر وزیر اعلیٰ نے اسمبلی توڑی، اُدھر خان صاحب نے کہا کہ ارے بھائی چودھری ، تو کون ہے؟یعنی من تو شدم تو من شدی والا ماجرا جو اب نظر آ رہا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے من من شدم، تو چہ شدی میں بدل جائے گا۔
مدت بڑھانے کی نیم گرم خبریں
کل بے نظیر محترمہ کا یوم شہادت منایا گیا۔ بے نظیر صاحبہ جب جلاوطنی سے واپس آئیں اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا تو اس وقت ذمہ داروں نے انہیں سکیورٹی رسک قرار دیا لیکن وہ الیکشن جیت گئیں اور حکومت بنا لی جو اس وقت کی سیاسی محاذ آرائی کے باعث نہ چل سکی اور نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔ دونوں سیاسی گروہوں کی دشمنی بڑھتی رہی یہاں تک کہ مشرف نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔
آخری فیصلہ عدالت نہیں، وقت کرتا ہے اور وقت نے فیصلہ کیا کہ سکیورٹی رسک بے نظیر نہیں تھیں بلکہ وہ لوگ تھے جو بے نظیر کو سکیورٹی رسک کہتے تھے اور جو دونوں سیاسی قوتوں کو لڑا کر اپنا سکہ چلاتے تھے۔ مشرف کے آخری دنوں میں سیاسی قوتیں ’’راز‘‘ کی بات سمجھ گئیں اور میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر دئیے۔ فیصلہ ہوا کہ دونوں کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ چنانچہ بے نظیر کو شہید کر دیا گیا، ہزاروں کے مجمعے میں یہ قتل ہوا اور اتنے برس بعد بھی کوئی گواہ ہے نہ گواہی ۔ بے نظیر پر فائرنگ سے ذرا پہلے تھوڑی دور موجود نواز شریف پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا اور چند لوگ مارے گئے۔ نواز شریف بچ گئے۔ ان کی قسمت کا فیصلہ پھرپانامہ اقامہ واردات میں کیا گیا۔
پی ایس ایل 8 کیلئےپشاور زلمی نے نئی کٹ کی جھلک دکھا دی میثاقِ جمہوریت نہ ہوتا تو شاید بے نظیر آج بھی زندہ ہوتیں۔ اب اتنے تجربے ہو چکے کہ مزید گنجائش ہی نہیں رہی۔ کہا جا سکتا ہے کہ آج اگر جمہوریت پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط........
© Nawa-i-Waqt
visit website