پنجاب کے معرکے میں پی ٹی آئی نے 50 فیصد فتح حاصل کر لی۔ فی الحال پی ٹی آئی 50 فیصد مبارکباد قبول کرے۔ پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پنجاب اسمبلی اور پنجاب حکومت دونوں ختم ہو جائیں۔ گورنر نے حکومت ختم کر کے ا س کی 50 فیصد خواہش پوری کر دی۔ باقی 50 فیصد کا ہدف حاصل کرنے کے لیے اس نے پٹیشن دائر کر دی ہے تاکہ حکومت پھر سے بحال ہو اور پھر بیک وقت خود کو اور اسمبلی کو ختم کر دے۔ گویا یہ دنیا کی تاریخ کی پہلی عرضی ہے جو کسی نے اپنے خاتمے کے لیے دی ہے۔ یہاں اس سوال کو فی الحال نظر انداز کر دیا جائے کہ آخر سو فیصد کامیابی 17 دسمبر ہی کو کیوں نہ حاصل کر لی گئی اور کیوں ’’دشمنوں‘‘ کو ایک ہفتے کا موقع دیا گیا کہ وہ ’’شب خون‘‘ مار کر سو فیصد فتح کو 50 فیصد میں بدل دے۔
اسلام آباد میں 2 ہفتوں کیلئے دفعہ 144 نافذ _____________
عدالت سے کیا فیصلہ آتا ہے، اس پر تبصرہ کرنا دانشمندی نہیں لیکن جو بات طے ہے، وہ طے ہے۔ بحران ایسا ہے کہ فیصلہ جو بھی آئے، یہ جاری رہے گا۔ اس کی شدّت میں کمی یا اضافہ ہو سکتا ہے۔ بہرحال، پی ٹی آئی حسب سابق پر یقین ہے کہ اسے انصاف ملے گا۔ رات ایک اینکر صاحب ٹی وی پر فرما رہے تھے کہ انصاف جاتے ہی مل جائے گا۔ ظاہر ہے، ان کی بات غلط تھی، یہ انصاف ہے، اسمبلی کی تحلیل نہیں کہ عمران کا اشارہ ہوتے ہی پرویز الٰہی آدھے منٹ میں کر دیں گے۔
_____________
گورنر صاحب نے اس رات وزیر اعلیٰ کو فارغ خطی نہیں دی جس رات دینا تھی بلکہ اگلی رات دی۔ اس تاخیر کی بابت طرح طرح کی تھیوریاں دی جا رہی ہیں اور وجوہات بتائی جا رہی ہیں لیکن اصل وجہ پر کسی نے دھیان کیا ہی نہیں۔
خودکش حملہ: گاڑی میں خاتون کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے، اسلام آباد پولیس اصل وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے اگلے روز گورنر ہائوس کے باہر ایک تاریخی مظاہرے کی کال دی تھی اور اس مظاہرے سے انہوں نے تاریخی خطاب بھی کرنا تھا۔ گورنر نے سوچا انہیں آزادانہ اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے دیا جائے۔ کیونکہ فارغ خطی کے بعد انہوں نے حسب سابق شکوہ کرنا تھا کہ ہماری حکومت نہیں رہی، پولیس ہمیں توڑ پھوڑ سے روک رہی تھی، ایسے میں ہم ’’انقلاب‘‘ کیسے لا پاتے۔
چنانچہ ’’انقلاب‘‘ برپا کرنے کا ایک موقع دیا گیا اور اس کی اگلی رات فارغ خطی ہوئی۔
فی تولہ سونے کی قیمت 3350 روپے کی کمی مظاہرہ تاریخی تھا لیکن سردی اتنی تھی کہ کیمروں کے لینز دھندلا گئے اور حاضرین کو ٹھیک سے نہ دکھا سکے۔ ایک لیگی لیڈر نے ناہنجاریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹی وی پر بیٹھ کر اس تاریخی اجتماع کا مذاق یہ کہہ کر اڑایا کہ ڈیڑھ سو آدمی بھی نہیں تھے۔
اتنا جھوٹ، خدا کی پناہ۔ مظاہرین کی تعداد کسی بھی طور تین سو سے کم نہیں تھی، شرط لگا لو!
_____________
خوشخبری یہ تھی کہ خان صاحب خود تشریف لا کر مجاہدین آزادی کو براہ راست خطاب سے مشرف کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کچھ معلوم کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر خان صاحب نے زمان پارک کے ناقابل تسخیر قلعے سے باہر آنا مناسب نہ سمجھا اور غائبانہ خطاب پر ہی اکتفا کیا یعنی وڈیو لنک پر جلوہ افروز ہوئے۔ حسب سابق تاریخی خطاب اور اس نے مخالفین کا یہ تاثر بھی باطل کر ڈالا کہ خان صاحب ہر بار وہی پرانی تقریر کر دیتے ہیں، کوئی نئی بات نہیں کرتے۔ اس بار انہوں نے نئی بات کی۔
20 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ، 14 میں کمی، ادارہ شماریات نئی بات یہ تھی کہ دہرائے جانے والے درجن بھر ناموں میں سے کوئی ایک نام بھی نہیں لیا۔ اس کے بجائے کسی ’’ایک شخص‘‘ کا ذکر کیا۔ فرمایا، اس ایک شخص نے میری حکومت ختم کی۔ محض ایک شخص یعنی بلاشرکت غیرے۔ مطلب امریکہ پر الزام واپس لے لیا۔ فی الحال یہ نئی بات کی۔ لہجہ بھی نیا تھا۔ یعنی براہ کرم، مداخلت فرمائیے، ہمیں پھر سے خدمت کا موقع دیجئے ۔ اس سے پہلے انداز حکم اور الٹی میٹم کا سا ہوتا تھا، اب کے درخواست نما تھا، بالکل ویسا ہی جیسا مرزا غالبؔ نے حصول پنشن کے لیے کمپنی بہادر کے حضور ایک قصیدہ نما درخواست میں اختیار کیا تھا۔
جاپان: 30 سے 90 سینٹی میٹر تک برف پڑنے کا امکان گویا اس بار ایک نہیں، دو دو نئی باتیں ہوئیں۔
_____________
ساری تقریر ہی التجائی رنگ کی نہیں تھی، ایک الٹی میٹم یا دھمکی ملغوف انداز میں بھی تھی۔ فرمایا، ہماری درخواست نہ مانی گئی تو ملک ہاتھ سے نکل جائے گا۔
ملک ہاتھ سے نہیں نکلے گا۔ اس کا جو خطرہ تھا، وہ ٹل گیا ہے، بے شک شیخ رشید سے پوچھ لیں۔ اسی لیے تو شیخ جی کے لہجے کی رعنائی نکھرنے کے بجائے بکھر گئی ہے۔ گھائو بہت گہرا ہے۔ وید کہتے ہیں، روگ بھاری ہے، اپائے دکھائی نہیں دیتا۔
_____________
پی ٹی آئی نے جتنی سیاست کی ہے، تاش والے کھیل کے انداز میں کی ہے۔ اسی لیے بار بار ٹرمپ کارڈ ماسٹر کارڈ کی بات کرتی ہے۔ تاش کے باون پتے ہوتے ہیں، ان میں سے سو کے قریب ٹرمپ کارڈ خان صاحب چلا چکے ہیں۔ سیاست کا کھیل تاش کی طرح کھیلا گیا تو نتیجہ بھی وہی نکلا جو اکثر تاش کھیلنے والوں کے لیے نکلا کرتا ہے یعنی تاش کے باون پتّے ، پنجے چھکے ستّے ۔ نکلے سب کے سب ہرجائی، ہائے میں تو لٹ گیا رام دہائی اور وہ سب پتّے جنہیں ’’ترپ‘‘ یا ٹرمپ کے سمجھے تھے، پتہ چلا سب کے سب سگریٹ کے پیکٹ والے پتّے تھے۔
_____________
پی ٹی آئی کی جو سیاست 2014ء کے بعد کی ہے، اسے گہری نظر سے دیکھا جائے تو مسرت نذیر صاحبہ کی گائیکی یاد آتی ہے۔ ان کا گلوکاری کا سفر فقط ایک گیت میرا لونگ گواچا تک محدود ہے۔ گائے تو انہوں نے اور بھی کئی گیت لیکن چلے نہیں۔ کسی سے پوچھ لیجئے مسرت نذیر نے کیا گایا تو جواب یہی ملے گا کہ لونگ گواچا۔
پی ٹی آئی نے بھی بس ایک ہی راگ گایا، ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ اب جا کے نہیں اس کی جگہ سائفر راگ نے لینے کی کوشش کی مگر ساز ہی ٹوٹ گیا۔ ’’نہ چھوڑوں راگ‘‘ کا ریکارڈ اب اتنا گھس گیا کہ سوئی آگے چلتی ہی نہیں، اٹک جاتی ہے اور اٹکی ہی رہتی ہے اور اسی اٹکن میں پی ٹی آئی کی سیاست کے سارے لوگ گواچے گئے۔
_____________
پنجاب کے معرکے میں پی ٹی آئی نے 50 فیصد فتح حاصل کر لی۔ فی الحال پی ٹی آئی 50 فیصد مبارکباد قبول کرے۔ پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پنجاب اسمبلی اور پنجاب حکومت دونوں ختم ہو جائیں۔ گورنر نے حکومت ختم کر کے ا س کی 50 فیصد خواہش پوری کر دی۔ باقی 50 فیصد کا ہدف حاصل کرنے کے لیے اس نے پٹیشن دائر کر دی ہے تاکہ حکومت پھر سے بحال ہو اور پھر بیک وقت خود کو اور اسمبلی کو ختم کر دے۔ گویا یہ دنیا کی تاریخ کی پہلی عرضی ہے جو کسی نے اپنے خاتمے کے لیے دی ہے۔ یہاں اس سوال کو فی الحال نظر انداز کر دیا جائے کہ آخر سو فیصد کامیابی 17 دسمبر ہی کو کیوں نہ حاصل کر لی گئی اور کیوں ’’دشمنوں‘‘ کو ایک ہفتے کا موقع دیا گیا کہ وہ ’’شب خون‘‘ مار کر سو فیصد فتح کو 50 فیصد میں بدل دے۔
اسلام آباد میں 2 ہفتوں کیلئے دفعہ 144 نافذ _____________
عدالت سے کیا فیصلہ آتا ہے، اس پر تبصرہ کرنا دانشمندی نہیں لیکن جو بات طے ہے، وہ طے ہے۔ بحران ایسا ہے کہ فیصلہ جو بھی آئے، یہ جاری رہے گا۔ اس کی شدّت میں کمی یا اضافہ ہو سکتا ہے۔ بہرحال، پی ٹی آئی حسب سابق پر یقین ہے کہ اسے انصاف ملے گا۔ رات ایک اینکر صاحب ٹی وی پر فرما رہے تھے کہ انصاف جاتے ہی مل جائے گا۔ ظاہر ہے، ان کی بات غلط تھی، یہ انصاف ہے، اسمبلی کی تحلیل نہیں کہ عمران کا اشارہ ہوتے ہی پرویز الٰہی آدھے منٹ میں کر دیں گے۔
_____________
گورنر صاحب نے اس رات وزیر اعلیٰ کو فارغ خطی نہیں دی جس رات دینا تھی بلکہ اگلی رات دی۔........
© Nawa-i-Waqt
visit website