کل 16 دسمبر کا دن گزرا۔ ایک دن پہلے خبر چھی کہ کل یوم سقوط ڈھاکہ منایا جائے گا‘ لیکن کہاں منایا گیا‘ کچھ پتہ نہیں چلا۔ 16 دسمبر کا دن سقوط ڈھاکہ کے علاوہ پشاور کے سکول میں سینکڑوں بچوں کے قتل کا دن بھی ہے۔ ایک قدر مشترک قتل عام تو دوسری قدر مشترک۔یہ ’’المیہ‘‘ بھی ہے کہ ذمہ داروں کا پتہ نہ اس سانحے سے پہلے چلا نہ اس سانحے کے بعد۔ پی ٹی آئی جب برسراقتدار آئی تو پہلا کام یہ کیا کہ قتل عام کے ایک مجرم یا ملزم احسان اللہ احسان کو ’’باعزت‘‘فرار قرار کرایا اوردوسرا یہ کام کیا کہ قتل عام کرنے والی ٹی ٹی پی سے مذاکرات بلکہ مواخات کے عمل کا ڈول ڈالا۔ وہی مواخات جس کے بارے میں گزشتہ ہفتے سرکاری ادارے نیکٹا نے ایوان کو بتایا کہ اس کی آڑ میں ٹی ٹی پی واپس کھلے میدان میں آئی۔ اپنی طاقت بڑھائی‘ جلسوں کا دائرہ پھیلایا اور بلوچستان میں بھی اپنے پنجے گاڑ لئے۔ مواخات کے اسی عمل کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سکول کے قتل عام میں جو بچے شہید کئے گئے‘ ان کے والدین کا عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ جس نے بھی مطالبہ کیا کہ میرے بچوں کے قاتل کو ڈھونڈو‘ اسے پولیس نے لاٹھیوں پر دھر لیا یا جیل میں ڈال دیا اور میڈیا کو بھی یہ حکم ملا کہ قتل عام پر احتجاج کرنے والے والدین کو ’’کوریج‘‘ مت دو۔
ادارہ شماریات نے مہنگائی کے ہفتہ وار اعداد و شمار جاری کردیے صاحب امر بالمعروف اس پالیسی کی ’’حکمت‘‘ مصلحت یا ضرورت پر شاید کبھی روشنی ڈالیں۔ سنا ہے‘ جیل میں فرصت ہی فرصت ہوتی ہے اور سنا ہے جلدہی انہیں یہ فرصت ملنے والی ہے۔ جس نے زندگی بھر کسی کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ کیا پتہ وہ اس فرصت سے فائدہ اٹھا کر کوئی کتاب ہی لکھ ڈالے اور اس ماجرے پر ضروری روشنی ڈال دے۔
…………
آج 17 دسمبر ہے‘ صاحب امر بالمعروف کسی بھی وقت پنجاب اسمبلی توڑنے کی تاریخ دے سکتے ہیں۔ اسی ماجرہ میں کوئی برا پھنسا ہے۔ وفاقی حکومت نہیں بلکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویزالٰہی‘ وہ اسمبلی توڑنا نہیں چاہتے۔ ایک روز پہلے صدر عارف علوی ان سے ملے۔ اس ملاقات میں بھی انہوں نے درخواست کی۔ خان صاحب کے اندرونی ذرائع کے مطابق درخواست کا متن کچھ یوں تھا کہ اسمبلی توڑنے سے نقصان ہوگا۔ اس سے بھی ایک دو روز پہلے پنجاب کے ’’ریٹائرڈ‘‘ ولی عہد مونس الٰہی نے صاحب امر بالمعروف سے ملاقات میں یہی بات ان تک پہنچائی۔
نومبر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 28 کروڑ ڈالر رہا، اسٹیٹ بینک ماجرا یہ ہے کہ دونوں باپ بیٹا صاحب امر بالمعروف کے ہاتھ پر بیعت کر چکے۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر کا امر مانا جائے‘ لیکن یہاں بیعت کرنے والوں کا جی بھی نہیں چاہتا۔ وہ زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ کوئی اور امر ارشاد فرمائیں پھر دیکھیے کیسے ہم آدھے منٹ میں اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہ والا امر بھاری پتھر ہے۔ ہم ناتواں باپ بیٹے سے اٹھایا نہیں جائے گا۔برے یوں پھنسے کہ انکار نہیں کرتے‘ تعمیل کرتے ہیں تو اتنی مشکل سے ملنے والی کرسی ہمیشہ کیلئے جاتی رہے گی اور عمل نہیں کرتے تو کوئی متبادل راستہ نجات یا بچائو کا نہیں مل رہا۔
باباوانگا کی 2023 سے متعلق کی گئی پیشگوئیاں ’’فیس سیونگ‘‘ کیلئے ایک بات پھیلائی جا رہی ہے معاملہ اگلے الیکشن میں سیٹ ایڈجسمنٹ پر اٹکا ہوا ہے۔ باپ بیٹا چاہتے ہیں ہمیں 20 سیٹیں دی جائیں۔ صاحب امربالمعروف کو یقین ہے کہ دوتہائی بلکہ تین چوتھائی سیٹیں تو وہ یونہی چٹکی بجا کر جیت لیں گے‘ کسی کو 20 کیا‘ 2 سیٹیں دینے کی بھی ضرورت نہیں۔
باپ بیٹا اب سوچ رہے ہیں‘ وہ وعدہ اور معاہدہ جو پی ڈی ایم والوں سے کیا تھا اور جس کی کمائی بھی کھا لی تھی‘ نہ توڑا ہوتا تو اچھا تھا۔
…………
مصطفیٰ نواز کھوکھر کا پیپلز پارٹی چھوڑنے کا اعلان ادھر صاحب امربالمعروف بھی ڈانواں ڈول ہیں۔ان تک صدر کے ذریعے یہ بات پہنچائی گئی ہے (شنید کے مطابق) کہ ادھر اسمبلی ٹوٹی‘ادھر آپ کو گرفتار کرکے مچھ جیل والوں کی مہمانداری میں دیدیا جائے گا۔ وہاں پھر کس پر حکم چلایئے گا؟
…………
بعض اخبارات نے صفحہ اول پر یہ چھوٹی سی خبر چھاپی ہے کہ گزشتہ روز خان صاحب جب راولپنڈی کے سٹوڈنٹس ڈگری کالج راولپنڈی سے ویڈیو لنک سے خطاب کرنے لگے تو خطاب شروع ہوتے ہی ہال خالی ہونا شروع ہو گیا۔ طالات اٹھ اٹھ کر جانے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہال تقریباً خالی ہو گیا۔
سفارتخانوں میں تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں، فواد چوہدری تقریباً خالی کا مطلب یہ ہو اکہ یکسر خالی نہیں ہوا‘ ایک آدھ طالبہ بدستور موجود رہی‘ اور پورا خطاب سنا۔ اس طالبہ کو تلاش کیا جانا چاہئے۔ خان صاحب اس کی حوصلہ افزائی کے طورپر اسے ایک آدھ رولیں گھڑی یا سونے کا ہار یا سونے کی انگوٹھی بطور انعام پیش کر دیں۔ خان صاحب کے پاس ان چیزوں کی کمی نہیں ہے بلکہ ان کی کوٹھی تو ان دانوں سے بھری ہوئی ہے۔
…………
یہ خبر گرمئی بازار میں کمی کا اشارہ کرتی ہے۔ گرمئی بازار کی شروعات خان صاحب کے اس تیسرے لانگ مارچ میں ہوئی تھی جو 29 اکتوبر کو لاہور سے شروع ہوا تھا۔ پہلے دن سے ہی ’’ہال‘‘ خالی ہونے کی خبریں پھیلنے لگیں اور جوں جوں لانگ مارچ آگے بڑھتا گیا‘ گرمئی بازار کی ’’قلت‘‘ بھی بڑھتی گئی۔ پہلے پہل تو خان صاحب کے ارادت مند ٹی وی اینکرز اس کی تردید کرتے رہے‘ پھریہ نکتہ نکالا کہ دراصل خان صاحب ہی نے عوام کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ کم سے کم تعداد میں آئیں۔ اپنی توانائی بچائیں اور پھر فیصلہ کن روز یعنی اسلام آباد کے دھرنے میں شرکت کیلئے سب کے سب پہنچیں۔ ان اینکر حضرات کا کہنا تھا کہ یہ خان صاحب کا خفیہ ٹرمپ کارڈ ہے جس کا حکومت کو پتہ ہی نہیں ہے۔ جس روز یہ مارچ اسلام آباد پہنچے گا‘ تب دیکھنا۔
لیکن تب دیکھنے کی نوبت ہی نہیں آ ئی۔ خان صاحب نے راولپنڈی کے مری روڈ پر ایک ننھا منا جلسہ کیا اور بات کہیں اور نکل گئی۔
…………
گرمئی بازار کی اس سردمہری کی وجہ ایک ارادت مند قانون دان نے یہ بتائی کہ خان صاحب کے حامی دراصل تھک گئے ہیں۔
تھک گئے ہیں یا اکتا گئے ہیں‘ ایک ایک کرکے سارے بیانیوں سے پلٹ گئے تو لوگوں نے بھی کہ دیاکہ ہم باز آئے محبت سے اٹھا لوپاندان اپنا۔
…………
ادھر حکومت اور خان صاحب کے درمیان بذریعہ عارف علوی بیک ڈور بات چیت جاری ہے اور ایک وزیر صاحب کا یہ انکشاف دلچسپ ہے کہ خان صاحب نے کہا ہے کہ میں ایجی ٹیشن نہیں کروں گا۔ اسمبلی بھی نہیں توڑوں گا۔ بشرطیکہ مجھ پر مقدمات نہ چلائو۔ جیل بھجوانے کا منصوبہ ترک کرو اور میرے مزید سکینڈل باہر نہ لائو۔ دوسرے الفاظ میں مجھے این آر او دو۔ حکومت نے درخواست نہیں مانی۔
بعدازاں ایک کتاب لکھی جائے گی یعنی جب یہ تماشا ختم ہوگا۔ کتاب کا نام کچھ یوں ہو سکتا ہے۔ کہ ’’این آر او نہیں دوں گا‘ سے مجھے این آر او دے دو‘‘ تک یا پھر یہ کہ ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ سے مجھے چھوڑ دو تک۔‘‘
دونوں نام لمبے ہیں‘ مختصر نام یہ ٹھیک رہے گا
’’للکار سے فریاد‘‘ تک۔
این آر او نہیں دوں گا سے این آر او لوں گا تک
کل 16 دسمبر کا دن گزرا۔ ایک دن پہلے خبر چھی کہ کل یوم سقوط ڈھاکہ منایا جائے گا‘ لیکن کہاں منایا گیا‘ کچھ پتہ نہیں چلا۔ 16 دسمبر کا دن سقوط ڈھاکہ کے علاوہ پشاور کے سکول میں سینکڑوں بچوں کے قتل کا دن بھی ہے۔ ایک قدر مشترک قتل عام تو دوسری قدر مشترک۔یہ ’’المیہ‘‘ بھی ہے کہ ذمہ داروں کا پتہ نہ اس سانحے سے پہلے چلا نہ اس سانحے کے بعد۔ پی ٹی آئی جب برسراقتدار آئی تو پہلا کام یہ کیا کہ قتل عام کے ایک مجرم یا ملزم احسان اللہ احسان کو ’’باعزت‘‘فرار قرار کرایا اوردوسرا یہ کام کیا کہ قتل عام کرنے والی ٹی ٹی پی سے مذاکرات بلکہ مواخات کے عمل کا ڈول ڈالا۔ وہی مواخات جس کے بارے میں گزشتہ ہفتے سرکاری ادارے نیکٹا نے ایوان کو بتایا کہ اس کی آڑ میں ٹی ٹی پی واپس کھلے میدان میں آئی۔ اپنی طاقت بڑھائی‘ جلسوں کا دائرہ پھیلایا اور بلوچستان میں بھی اپنے پنجے گاڑ لئے۔ مواخات کے اسی عمل کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سکول کے قتل عام میں جو بچے شہید کئے گئے‘ ان کے والدین کا عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ جس نے بھی مطالبہ کیا کہ میرے بچوں کے قاتل کو ڈھونڈو‘ اسے پولیس نے لاٹھیوں پر دھر لیا یا جیل میں ڈال دیا اور میڈیا کو بھی یہ حکم ملا کہ قتل عام پر احتجاج کرنے والے والدین کو ’’کوریج‘‘ مت دو۔
ادارہ شماریات نے مہنگائی کے ہفتہ وار اعداد و شمار جاری کردیے صاحب امر بالمعروف اس پالیسی کی ’’حکمت‘‘ مصلحت یا ضرورت پر شاید کبھی روشنی ڈالیں۔ سنا ہے‘ جیل میں فرصت ہی فرصت ہوتی ہے اور سنا ہے جلدہی انہیں یہ فرصت ملنے والی ہے۔ جس نے زندگی بھر کسی کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ کیا پتہ وہ اس فرصت سے فائدہ اٹھا کر کوئی کتاب ہی لکھ ڈالے اور اس ماجرے پر ضروری........
© Nawa-i-Waqt
visit website