وہ کیا ہے کہ انوری نام کے شاعر نے اپنی قسمت کا جو ماجرا دو شعروں میں بیان کیا تھا، وہ ہمارے ہاں، عمران خان کی کتھا بنتا جا رہا ہے۔ اگرچہ فی الحال اسے انتم کتھا نہیں کہا جا سکتا لیکن کیا پتہ؟۔ محمد بن حمد ابی وردی انوری کے یہ شعر کچھ یوں ہیں
ہر بلائے کہ ز آسماں آید
گرچہ بر دیگراں قضا باشد
بہ زمیں نارسیدہ می گوید
خانہ انوری کجا باشد
یعنی جو بھی آفت اوپر سے آتی ہے، چاہے کسی کے نام کی ہو، زمین پر اترنے سے پہلے انوری کے گھر کا پتہ پوچھتی ہے کہ وہیں جاﺅں گی۔
پانچ بار کا چیمپئن برازیل فٹبال ورلڈکپ سے باہر ہوگیا _________
گزرے اپریل سے لے کر اب تک عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ جو بلا اترتی ہے، بنی گالہ کا پتہ پوچھتی ہے، جو آفت آتی ہے، زماں پارک کا رکشہ بک کراتی ہے۔ اب کیا کیجئے، خاص طور سے نومبر کا مہینہ اور اب دسمبر ایسا جا رہا ہے کہ بلائیں شہابیوں کی طرح آ رہی ہیں۔
گزرے کل کو دیکھ لیجئے، ایک ہی دن میں چار چار آفتیں ٹوٹ پڑیں۔ پہلی بلا تو کسی عدالت کے اس بلاوے کو سمجھ لیجئے جس میں اخباری سرخی کے مطابق کسی مبینہ بیٹی کے معاملے میں پوچھ گچھ کا ذکر ہے۔ بیٹی یا تو سگی ہوتی ہے یا سوتیلی یا پھر لے پالک۔ ایک چوتھی بیٹی بھی ہوتی ہے یعنی کوئی بھی شخص کسی بھی بچی کو بیٹی کہہ کر پکارتا ہے اور یہیں سے وہ کہاوت بھی نکلی کہ بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ مبینہ بیٹی کی اصطلاح پہلی بار سنی۔ خیر، اس کی تشریح تو عدالت ہی کرے گی لیکن پی ٹی آئی کے میڈیا پرسنز کی داد فریاد سے پتہ چلتا ہے کہ خان صاحب کو اس بلاوے سے سخت پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔
امریکی صدر نے یوکرین کیلئے ساڑھے 27 کروڑ ڈالر کا عسکری امدادی پیکج منظور کرلیا یہ دن کی شروعات تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد کسی مرشدانی اور کسی زلفی بخاری کی آڈیو نازل ہوئی۔ یہ دوسری بلا تھی۔ اس میں کسی گھڑی نہیں، کچھ گھڑیوں کی فروخت کا ماجرا زیر بحث تھا۔ سوشل میڈیا پر اس آڈیو نے دہائی مچا دی۔ اے لوگو، ایک نہیں، کئی گھڑیاں بیچی گئی ہیں، زلفی بخاری گرائمر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بار بار مرشدانی کے بجائے جی مرشد، جی مرشد کہتے رہے۔
اور پھر ابھی یہ کہرام مدھم نہیں ہوا تھا کہ کسی دکاندار کا بیان حلفی آ گیا کہ جی، میں نے تو مرشدانی سے کوئی گھڑی خریدی‘ نہ ہار نہ ہیرے کی انگوٹھی۔ میرا نام خواہ مخواہ ان لوگوں نے دیدیا۔ یہ آفت بہت ہی بھاری تھی کہ بیانِ صفا ئی میں مرشد خانے نے اسی دکاندار کا نام لیا تھا کہ گھڑی ہار انگوٹھی سب اسی کو اتنے میں بیچا۔ اب یہاںبیانِ صفائی ہی جھوٹا ثابت ہوگا تو کیا بنے گا۔ بھاری آفت نے گھیر لیا۔ خیر‘ کوئی بات نہیں‘ ہم کہہ دیں گے کہ دکاندار جھوٹا ہے‘ لفافہ ہے۔ سچا بیان وہی ہے جو ہم نے دیا ہے۔
گوگل نے بطور کمپنی ایس ای سی پی میں رجسٹریشن کرالی _______
یہ آفات اپنی جگہ قیامت ڈھا رہی تھیں کہ رات ڈھلنے سے پہلے لندن کے اخبار ڈیلی میل کا معافی نامہ آگیا۔ اس نے کہا شہبازشریف پر جو الزام لگایا تھا‘ سراسر جھوٹا ہے۔ ہم معافی مانگتے ہیں اور اس الزام والا سارا مضمون اپنی ویب سائٹ اور نیٹ پر موجود دیگر تمام میڈیا سے حذف کرتے ہیں۔
ابھی دو ہفتے پہلے ہی خان صاحب نے پریس کانفرنس کی تھی کہ ڈیلی میل کے الزام کا حرف حرف سچا ہے۔ شہبازشریف کو جواب دینا پڑے گا‘لیکن کسی صورت نہیں بچے گا۔ اس نے چوری کی ہے‘ کسی قیمت پر ایسے چور کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا جسے موقر برطانوی اخبار نے چور کہا ہے۔ سارے ثبوت اس اخبار کے پاس ہیں جو شہزاداکبر نے دیئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
جاپان: پولیس کو 9 دن میں 2060 فون کالز کرنے والا گرفتار لیکن یہاں تو غبارے کی گیس کچھ اتنے زور سے نکلی کہ غبارے کی ربڑ بھی ”پھیتی پھیتی“ ہوکر ذروں میں بٹی اور تحلیل ہو گئی۔ اب کیا ہوگا؟ شہبازشریف عمران خان کے بارے میں بڑے نرم دل ہیں۔ ورنہ وہ عمران خان پرہتک عزت کا دعویٰ کر دیتے تو بڑی سمسیا کھڑی ہو جاتی۔
_______
اور اسے بھی آفت ہی سمجھئے کہ الیکشن کراﺅ کے عنوان سے جو نئی عوامی مہم شروع کی تھی‘ وہ بھی ”لاپتہ“ ہو گئی۔ بہت سے لوگوںکو تو اخبار پڑھ کر پتہ چلا کہ ایسی کوئی مہم چل رہی ہے اور اب وہ پتہ پوچھتے پھر رہے ہیں کہ یہ مہم
دوسری اننگز میں بھی5وکٹیں لینے کی کوشش کروں گا، ابرار احمد کہاں ہے‘ کس طرف کو ہے‘ کدھر ہے
ایسے میں سنا ہے کہ ایک رپورٹ حکومت کو پیش کی گئی ہے کہ عمران خان کی طاقت سکڑ گئی ہے۔ کارکن جوش و جذبہ سے محروم ہیں۔ اب کچھ کرنے‘ کہیں نکلنے کے قابل نہیں رہے۔ دھوپ کا رشتہ سورج سے ہوتا ہے۔ سورج بھی گہنا جائے تو کہاں کی دھوپ۔ اپریل سے دسمبر تک سفر میں ناکامیاں قطار اندر قطار تشریف لائی ہیں۔ ایسے میں تو کیا رستم‘ کیا تیمور‘ سبھی کا زہرہ آب ہو جائے۔ یہ تو پھر بھی عمران خان ہیں جو رستم ہیں نہ تیمور اوپر سے گولیوں کے زخم خوردہ بھی۔ پھر ”چیف “بھی مرضی کا نہیں آیا۔
_______
چیف کو چھوڑئیے‘ اپنا صدر بھی اپنا نہیں رہا۔ کس بے لحاظی اور بے مروّتی سے کہہ دیا کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ ہی نہیں ہے۔ یا مالک‘ یہ کیا ہو رہا ہے۔
_______
یکے از حشرات کنکھجورا ہے‘ لیکن خطرناکی کے اعتبار سے اس کی کئی قسمیں ہیں۔ ہشت پا یعنی آٹھ ٹانگوں والا، صدپا CENTIPEDE یعنی سو پاﺅں والا اور ایک ان سے بھی بڑا بہت ہی بڑا یعنی ہزارپا MILLIPEDE اتنا بڑا کہ چھوٹے موٹے سانپ کو بھی پکڑ کر پیس ڈالتا ہے۔
اسی طرح پنڈورا باکس ہے‘ حجرہ ہفت بلا۔ یعنی سات بلاﺅں کی کوٹھڑی۔ روایت میں اتنا ہی لکھا ہے‘ لیکن پھر بے بس سو بلاﺅں یا ان سے بھی زیادہ بلاﺅں والے حجرے بھی آتے ہیں۔
کتنی ہی بہت سی بلائیں آتی ہیں‘ سب لکھنے والے لکھ اور بتانے والے بتا رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے اور ابھی وہ شعر بھی دہرایا جانے والا ہے۔ ذرا سی ترمیم کے ساتھ
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک ”شرفِ” ناگہانی اور ہے
شرف سے مراد نوازشریف ہیں۔ آتے مہینے ان کی ناگہانی آمد کی سناﺅنی ہے۔ اللہ بہت ہی خیر کرے۔
_______
وہ کیا ہے کہ انوری نام کے شاعر نے اپنی قسمت کا جو ماجرا دو شعروں میں بیان کیا تھا، وہ ہمارے ہاں، عمران خان کی کتھا بنتا جا رہا ہے۔ اگرچہ فی الحال اسے انتم کتھا نہیں کہا جا سکتا لیکن کیا پتہ؟۔ محمد بن حمد ابی وردی انوری کے یہ شعر کچھ یوں ہیں
ہر بلائے کہ ز آسماں آید
گرچہ بر دیگراں قضا باشد
بہ زمیں نارسیدہ می گوید
خانہ انوری کجا باشد
یعنی جو بھی آفت اوپر سے آتی ہے، چاہے کسی کے نام کی ہو، زمین پر اترنے سے پہلے انوری کے گھر کا پتہ پوچھتی ہے کہ وہیں جاﺅں گی۔
پانچ بار کا چیمپئن برازیل فٹبال ورلڈکپ سے باہر ہوگیا _________
گزرے اپریل سے لے کر اب تک عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ جو بلا اترتی ہے، بنی گالہ کا پتہ پوچھتی ہے، جو آفت آتی ہے، زماں پارک کا رکشہ بک کراتی ہے۔ اب کیا کیجئے، خاص طور سے نومبر کا مہینہ اور اب دسمبر ایسا جا رہا ہے کہ بلائیں شہابیوں کی طرح آ رہی ہیں۔
گزرے کل کو دیکھ لیجئے، ایک ہی دن میں چار چار آفتیں ٹوٹ پڑیں۔ پہلی بلا تو کسی عدالت کے اس بلاوے کو سمجھ لیجئے جس میں اخباری سرخی کے مطابق کسی مبینہ بیٹی کے معاملے میں پوچھ گچھ کا ذکر ہے۔ بیٹی یا تو سگی ہوتی ہے یا سوتیلی یا پھر لے پالک۔ ایک چوتھی بیٹی بھی ہوتی ہے یعنی کوئی بھی شخص کسی بھی بچی کو بیٹی کہہ کر پکارتا ہے اور یہیں سے وہ کہاوت بھی نکلی کہ بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ مبینہ بیٹی کی اصطلاح پہلی بار سنی۔ خیر، اس کی تشریح تو عدالت ہی........
© Nawa-i-Waqt
visit website