ایک معاصر نے تجزیاتی رپورٹ چھاپی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گیٹ نمبر 4 ہمیشہ کیلئے بند کرنے کا وقت آگیا ہے۔ گیٹ تو گیٹ ہے‘ وہ تو رہے گا‘ خبر نگار کا مطلب ہے کہ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں ہوگا۔ ”وقت آگیا“ کے الفاظ خواہش کی ترجمانی کرتے ہیں یا پھر مطالبے کی ‘ لیکن خواہش ہو یا مطالبہ‘ یہ معاملہ اب مو¿ثر بہ ماضی کا ہے کیونکہ عالم بالا سے یہ خبر ٹھوس الفاظ کے ساتھ کئی بار بتائی جا چکی ہے کہ ایسے دروازے‘ کھڑکیاں اور روزن گزشتہ سال کے فروری سے بندھ ہو چکے ہیں اور آئندہ ان کے پھر سے کھلنے کے امکانات بھی ختم ہو چکے ہیں۔
عمران خان کا پنجاب اور کے پی کی حکومتیں چھوڑنے اور استعفے دینے کا فیصلہ خیر یہ بحث اپنی جگہ‘ جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گیٹ نمبر چار کھلا ہے یا بند ہے کیونکہ ہمارے ممدوح جو اس گیٹ کے چھ سات عشروں سے مستعد ملازم تھے‘ نوکری سے برطرف کئے جا چکے ہیں اور سنا ہے کہ ان کی برطرفی کو اب دو سال ہونے کو آئے۔ اب جبکہ وہ نوکر نہیں رہے تو
اپنی بلا سے بوم بسے یا ہمارہے
آج وہ سنہرے دن حب ہمارے ممدوح شیخ جی گیٹ کی یاترا سے آتے تھے‘ اخبار نویسوںکا جمگٹھا لگاتے تھے اورآکر گرم گرم خبریں سنایا کرتے تھے کہ اب یہ ہونے والا ہے‘ اب وہ ہونے والا ہے‘ یہ ہو گیا اور وہ بھی ہو گیا۔
لانگ مارچ ناکام، عمران کا نئے چیف کو متنازع بنانے کا پلان فیل ہو گیا: مریم نواز جب سے نوکری چھٹی ہے ‘ہمارے ممدوح پیش گوئی کرنے کا آرٹ بھی بھول گئے ہیں۔ ایک دن ارشاد فرماتے ہیں اگلے تین ماہ اہم ہیں‘ دوسرے دن یہ اطلاع دیتے ہیںکہ اگلے پندرہ دن اہم ہیں۔ تیسرے دن اگلے تین دن اہم ہو جاتے ہیں اور چوتھے دن یہ اطلاع نشر کرتے ہیں کہ اگلا سال پورے کا پورا بہت اہم ہے۔
اللہ بچائے‘ نوکری چھٹنے کا صدمہ کسی کو نہ دکھائے۔ آدمی دل کا رہتا ہے نہ دماغ کا۔ اس محاورے کی ایک دوسری شکل میں گھر اور گھاٹ کے الفاظ آتے ہیں‘ آپ کو جو پسند آئے‘ وہی محاورہ ٹھیک ہے۔
راولپنڈی: جلسہ گاہ اور اطراف میں موبائل فون سگنلز بند ................
شیخ جی کچھ دنوں سے حقیقی آزادی ملنے والی ہے کا مژدہ سنانے پر مامور ہیں۔ ظاہر ہے اطلاع انہیں گیٹ نمبر چار سے نہیں ملی۔ کسی اور گیٹ سے وہ یہ خبر لائے ہیں‘ لیکن خبر سنانے کا لہجہ روزبروز مدھم ہوتا جاتا ہے۔ خدا جانے کیا معاملہ ہے
وہی دل ہے مگر آواز مدھم ہوتی جاتی ہے
................
معیشت کے حالات پر نظر رکھنے والے ادارے بلوم برگ نے پاکستان کے بارے میں رپورٹ جاری کی ہے۔ کہا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات دس فیصد ہیں۔
بلوم برگ یہ رپورٹ کچھ دنوں کیلئے ”ہولڈ“ کر سکتا تھا ‘ لیکن نہیں کی۔ اس نے ہمارے قافلہ ٰآزادی والوں کے پہلے سے دکھی دل کو مزید دکھ دینے کیلئے رپورٹ جاری کی ہے جو ظاہر ہے سخت غیر اخلاقی حرکت ہے۔ قافلہ آزادی کے سالار اعلیٰ نے چند دن پہلے یہ خوشخبری اپنے چاہنے والوں کیلئے دی تھی کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکانات (یعنی امیدیں) 80 فیصد ہیں۔ بلوم برگ والے اسی کا لحاظ کر لیتے۔ وہ یہ رپورٹ ان الفاظ میںبھی جاری کر سکتے تھے کہ دیوالیہ ہونے کے امکانات 80 فیصد سے کم ہیں۔ (ظاہر ہے‘ دس فیصد 80 فیصد سے بہر حال کم ہی ہوتے ہیں) اس طرح رپورٹ بھی جاری ہو جاتی اور احباب آزادی کے دل بھی نہ دکھتے۔ مطلب اس سے دل کم دکھی ہوتے جتنے کہ اب ہوئے ہیں۔
اٹلی: موسلا دھار بارشوں سے لینڈ سلائیڈنگ ، 8 افراد ہلاک ................
بلوم برگ کی یہ رپورٹ واقعتاً مایوس کن ہے۔ مطلب یہ کہ ساڑھے تین سال کی مخفی اور پچھلے چھ ماہ کی غیر مخفی کوششوں‘ تمناﺅں‘ آشاﺅں اور پراتھناﺅں کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ ہمارے شیخ جی بھی گیٹ نمبر چار سے فارغ خطی کا خط پانے کے بعد ملک کے سری لنکا بننے‘ خونی انقلاب اور تختہ اقتدار کے دھڑن ہونے کی خبریں سنا سنا کر تھک گئے۔
اتنی زیادہ محنتوں کا محنتانہ اچھا نہیں ملا۔
................
وزیرآباد میں عمران خان پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کیلئے پنجاب میں عمران خان کی اپنی حکومت نے جو ”جے آئی ٹی“ بنائی تھی‘ اس نے قرار دیا ہے کہ حملہ آور ایک ہی تھا‘ دو نہیں تھے۔
پی ٹی آئی لانگ مارچ میں 15سے16ہزار لوگ ہیں، رانا ثنااللہ اس حملے میں عمران خان کی ٹانگوں پر گولیوں کے ٹکڑے لگے تھے‘ کنٹینر پر کھڑے عمران خان کے گارڈ نے وائرل ہوئی ویڈیو کے مطابق‘ نہ جانے اپنی گن نیچے کرکے ایک شخص کو گولی مار دی اور پھر گن واپس اپنی پوزیشن پر لے گیا۔ یہ شخص جو پی ٹی آئی کا کارکن تھا‘ گارڈ کی اس گولی سے چل بسا۔
عمران خان نے کہا تھا‘ ان پر ہر طرف سے برسٹ برسائے گئے۔ پی ٹی آئی نے ایک بیان میں یہ بھی بتایا کہ پستول کی گولی کے علاوہ عمران خان کو سٹین گن کی ایک گولی بھی لگی ہے۔ پی ٹی آئی نے یہ بھی بتایا کہ ایک حملہ آور اوپر کسی کھمبے پر کھڑا تھا‘ اس نے بھی برسٹ مارے۔
اب عمران خان کی اپنی جے آئی ٹی نے یہ سب کچھ جھوٹ قرار دیدیا ہے تو پی ٹی آئی والے خاموش ہوگئے ہیں۔
یعنی اپنے ہی اعضاءاور جوارح نے مخالف گواہی دے ڈالی ہے۔
................
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سکول سے باہر بچوںکی تعداد دو کروڑ سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ تعداد عالمی ریکارڈ ہے۔
یہ بچے سارے کے سارے گلیوں میں آوارہ گردی نہیں کرتے‘ اکثریت ان کی چائلڈ لیبر کے طورپر دردناک حالات میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔ صرف محنت نہیں کرتے‘ مالکان کی مار بھی کھاتے ہیں اور کئی ان میں سے ہلاک بھی کر دیئے جاتے ہیں۔
عجیب ماجرا ہے‘ پوری دنیا میں چائلڈ لیبر کم ہوتی جاتی ہے‘ کئی ملکوں میں تو بالکل ہی ختم ہو گئی ہے اورہم واحد ملک ہیں جس میں یہ لیبر دن بدن بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اسی طرح ساری دنیا میں یہاں تک کہ افغانستان میں بھی سکول جانے والے بچوں کی تعداد دن بدن بڑھتی اور ہمارے ہاں اس کے برعکس دن بدن گھٹتی چلی جا رہی ہے۔
ساری دنیا کے سارے مالک دم بدم ترقی کرتے جاتے ہیں‘ کوئی تیزی سے ترقی کر رہا ہے‘ کوئی آہستہ آہستہ‘ اکیلے ہم ہیں جو ترقی معکوس کے راستے پر گامزن ہیں۔
اسیں اُرلے کنڈھے پھرنے ہاں
سارے سجن پرلے پار گئے
کل ہی کسی نے ایک تصویر شیئر کی۔ ایک سرکاری گرلز سکول کی ایڈمن نے حکم دیا کہ کل سے تمام طالبات جرابیں پہن کر آئیں۔ ایک ننھی طالبہ اگلے روز پلاسٹک کا شاپر پہن کر آئی کہ اس کے گھر والے موزے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یہ دن پاکستان کو کسی کافر ادا کے غمزہ¿ خونریز نے دکھائے؟
ایک معاصر نے تجزیاتی رپورٹ چھاپی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گیٹ نمبر 4 ہمیشہ کیلئے بند کرنے کا وقت آگیا ہے۔ گیٹ تو گیٹ ہے‘ وہ تو رہے گا‘ خبر نگار کا مطلب ہے کہ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں ہوگا۔ ”وقت آگیا“ کے الفاظ خواہش کی ترجمانی کرتے ہیں یا پھر مطالبے کی ‘ لیکن خواہش ہو یا مطالبہ‘ یہ معاملہ اب مو¿ثر بہ ماضی کا ہے کیونکہ عالم بالا سے یہ خبر ٹھوس الفاظ کے ساتھ کئی بار بتائی جا چکی ہے کہ ایسے دروازے‘ کھڑکیاں اور روزن گزشتہ سال کے فروری سے بندھ ہو چکے ہیں اور آئندہ ان کے پھر سے کھلنے کے امکانات بھی ختم ہو چکے ہیں۔
عمران خان کا پنجاب اور کے پی کی حکومتیں چھوڑنے اور استعفے دینے کا فیصلہ خیر یہ بحث اپنی جگہ‘ جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گیٹ نمبر چار کھلا ہے یا بند ہے کیونکہ ہمارے ممدوح جو اس گیٹ کے چھ سات عشروں سے مستعد ملازم تھے‘ نوکری سے برطرف کئے جا چکے ہیں اور سنا ہے کہ ان کی برطرفی کو اب دو سال ہونے کو آئے۔ اب جبکہ وہ نوکر نہیں رہے تو
اپنی بلا سے بوم بسے یا ہمارہے
آج وہ سنہرے دن حب ہمارے ممدوح شیخ جی گیٹ کی یاترا سے آتے تھے‘ اخبار نویسوںکا جمگٹھا لگاتے تھے اورآکر گرم گرم خبریں سنایا کرتے تھے کہ اب یہ ہونے والا ہے‘ اب وہ ہونے والا ہے‘ یہ ہو گیا اور وہ بھی ہو گیا۔
لانگ مارچ ناکام، عمران کا نئے چیف کو متنازع بنانے کا پلان فیل ہو گیا: مریم نواز جب سے نوکری چھٹی ہے ‘ہمارے ممدوح پیش گوئی کرنے کا آرٹ بھی بھول گئے ہیں۔ ایک دن ارشاد فرماتے ہیں اگلے تین ماہ اہم ہیں‘........
© Nawa-i-Waqt
visit website