آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں ستر سال کی تاریخ کا ذکر کیا تو بنگال کے ادیب شرت چندر چٹوپا دھیائے کا عالمی شہرت والا ناول دیوداس یاد آ گیا۔ فلم کا ہیرو اپنے الوداعی لمحات میں ماضی کو یاد کرتا ہے۔ اس کے دماغ میں اس کی کُل عمر کی فلیش بیک ریل چلنے لگتی ہے۔ تمام اہم واقعات چند سیکنڈ کے دورانیے میں گھوم کر رہ جاتے ہیں۔ یہ تخیّل بنیادی طور پر مغرب سے آیا، وہاں کے ادیبوں نے اس سائنسی دریافت کو اپنے اداس ناولوں اور افسانوں میں استعمال کیا کہ آخری لمحات میں دماغ کے اندر زندگی کی پوری فلم فاسٹ فارورڈ ہونے لگتی ہے۔ شرت چندر کے اس ناول پر استاد بمل رائے نے 1955ءمیں فلم بنائی جس کے ہیرو دلیپ کمار تھے۔ بمل رائے نے کمال مہارت سے یہ ریل چلتے ہوئے دکھائی۔

آپ نے ہفتے کو میرے لیے راولپنڈی پہنچنا ہے، عمران خان کا کارکنوں کو پیغام

انسان کا پورا سفر، عہدِ طفلی سے عمر سفلی تک خسارے کی کہانی ہے۔ قرآن کی سورة العصر دیکھئے، تین آیات کی یہ سورة اس سفر کی حقیقت بھی بتائی ہے اور امید بھی دکھلاتی ہے۔ زمانے کی قسم، انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے لیکن انسان کا ماجرا یہ ہے کہ وہ گھاٹے کے سفر کو فائدے کا سودا سمجھتا ہے۔ اربوں کھربوں کمانے کی دوڑ میں دوگز زمین میں چھپ جاتا ہے۔ ٹالسٹائی کا مشہور ترین افسانہ دو گزر زمین کو بھی اس سورة کے ایک جزو کی تفسیر سمجھئے۔

________

ہمارا یہ ستر سال کا سفر گھاٹے کا ہے۔ سیاسی مداخلت نے اس ملک کو برباد کر دیا ورنہ اس میں جنوبی کوریا سے بھی آگے جانے کا پورا پورا پوٹینشل تھا۔ کل پرسوں ہی ایک رپورٹ آئی کہ پاکستان میں چالیس فیصد بچے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غریب بچوں کی تعداد بھی اتنی ہی ہو گی۔ غریب وہ ہے جو بمشکل کبھی ایک اور کبھی دو وقت کی روٹی کھا سکے، پھٹے پرانے یا محض پرانے کپڑے پہن سکے جبکہ خط غربت سے نیچے والا غریب وہ ہے جو ایک وقت کا کھانا بھی نہ کھا سکے۔ یہ بچے شادی ہالوں اور بڑے ہوٹلوں کے باہر قطار بنا کر گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں کہ سجا ہوا کھانا کوئی باہر پڑے ڈرم میں پھینکے تو ہم بھی پیٹ کی آگ بجھائیں۔ یہ بچے سکول نہیں جاتے۔ انہیں سکول کا پتہ ہی نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ بچے آوارہ گھومتے پھرتے کھلونوں کی دکانوں کے باہر کھڑے اندر پڑے کھلونوں کو حیرت سے دیکھتے نظر آتے تھے۔ اب زمانہ بدل گیا ، چھوٹی دکانوں کی جگہ بڑے بڑے مال بن گئے جس کے اندر داخلے کی ان کو اجازت ہی نہیں یا پھر بڑے بڑے سپرسٹور کھل گئے جن کے چوکیدار ایسے بچوں کو باہر کھڑے ہونے یا اندر جھانکنے کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ چند روز پہلے کراچی میں ایک ایسا ہی آٹھ سالہ بچہ ایسے ہی کسی سپرسٹور کے باہر کھڑا امیر بچوں کو غبارے بیچنے کی آس میں کھڑا تھا کہ سپرسٹور کے چوکیدار نے اسے گولی مار کر گھائل کر دیا، پھر قریب ہی کچرے کے ڈرم میں پھینک دیا اور اسی کچرے کے ڈبے میں اس کچرا بچے کی جان نکلی۔ پولیس نے کیس درج کیا، پھر یہ معلوم ہونے پر کہ کیس کچرے کا ہے، داخل دفتر کر دیا۔

آج سے عمران خان کی فتح کے دن شروع ہوگئے، شیخ رشید

ستر سالہ تاریخ کا خلاصہ دو سطر کا ہے۔ (1) اشرافیہ محلات کی مخلوق ہیں، (2) عوام کچرے کے ڈبے کی آئٹم ہیں۔

________

اشرافیہ کا اقتدار اعلیٰ ایوب خاں نے شروع کیا، مشرف اسے عروج کی چڑھائی پر لے کر گیا اور عمران خان نے اسے عروج کی چوٹی پر پہنچا دیا۔یہاں عمران خان کی کرشماتی شخصیت کو داد دینا لازم ہے کہ ان کی ولولہ انگیز قیادت میں، پاکستان کی تاریخ میں، کل اشرافیہ سیسہ پلائی دیوار بن کر اُن کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ بام عروج کے بعد اترائی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ کیا ایسا ہمارے ہاں بھی ہو گا؟

بچوں پر ضرورت سے زیادہ سختی ڈپریشن کا سبب بن سکتی ہے،تحقیق

نیا سفر اس وعدے کے ساتھ شروع ہوا ہے کہ اب مداخلت نہیں ہو گی۔ پانچ سال پہلے نواز شریف نے کہا تھا مداخلت نہ کی جائے اور یہ کہ افتادگانِ خاک یعنی کچرے کی مخلوق کی رائے کا احترام کیا جائے۔ اس گستاخی پر ریاست ہل کر رہ گئی تھی۔ فوراً بعد ہی نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو بالترتیب 17 ، دس سال اور 7 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

اب پتہ چلا کہ نواز شریف کی گستاخی برحق تھی تو کیا یہ سزائیں بھی واپس ہوں گی یا نہیں؟

________

عمران خان کا نام لئے بغیر کہا گیا کہ جھوٹے اور بے بنیاد فسانے گھڑے گئے اور اب ((وہ نہیں چل سکے تو) ان سے فرار کی راہ ڈھونڈی جا رہی ہے۔

اسلام آباد میں مزید 2ماہ کیلئے دفعہ 144 نافذ

یہ بیانئے کیا تھے یہی کہ میری حکومت امریکہ نے الٹائی، امریکہ نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے میر جعفر میر صادق چنے وغیرہ وغیرہ ۔

گزشتہ ہفتے عمران نے یہ دونوں بیانئے باری باری واپس لے لئے، اسی بات کو راہ فرار اختیار کرنے سے تعبیر کیا گیا۔

خیال آتا ہے، ان لاکھوں افراد نے ان بیانیوں پر ایمان لا کر جو گھاٹا کمایا، کیا انہیں بھی کوئی پچھتاوا ہو گا؟

________

خطاب میں سقوط ڈھاکہ کا ذکر بھی ہوا اور کہا گیا کہ یہ فوجی شکست نہیں، سیاسی غلطی تھی۔ اس کے ساتھ ہی الیکٹرانک میڈیا پر اس بارے میں بحث چھڑ گئی۔ سیاسی غلطی یا فوجی شکست۔

انڈونیشیا میں زلزلہ: دو دن سے ملبے تلے دبے بچے کو زندہ نکال لیا گیا

یہ بحث ماضی میں بھی بہت بار چھڑی اور آئندہ بھی چھڑتی رہے گی اور وقت ضائع ہوا کرے گا۔ اس کا حل موجود ہے۔ حمود الرحمن کمشن رپورٹ کو حکومت سرکاری طور پر چھاپ دے یعنی جاری کر دے۔ یہ رپورٹ جس کمشن نے بنائی، وہ کسی غیر ملک کی نہیں، ہماری اپنی عدلیہ کے ججوں نے بنایا اور یہ غیر ملکی انٹیلی جنس رپورٹوں پر نہیں سقوط ڈھاکہ کے کرداروں کے بیانات اور گواہیوں پر مبنی ہے۔

اس میں کچھ بھی قومی مفاد کے خلاف نہیں ہے۔ جاری ہو جائے تو گاہے گاہے ہونے والی جھک جھک سے نجات ملے۔ حیرت ہے، یہ رپورٹ یہاں سے لیک ہو کر بھارت میں، پھر دنیا بھر میں چھپ گئی، یہاں غیر قانونی ہے، کسی کو چھاپنے کی اجازت نہیں ہے۔ چھپ جائے تو ستر سالہ خسارے کے ازالے کی راہ بھی نکل سکتی ہے۔

________

QOSHE - خسارہ ستّر سال کا  - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists . News Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

خسارہ ستّر سال کا 

9 1 18
25.11.2022

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں ستر سال کی تاریخ کا ذکر کیا تو بنگال کے ادیب شرت چندر چٹوپا دھیائے کا عالمی شہرت والا ناول دیوداس یاد آ گیا۔ فلم کا ہیرو اپنے الوداعی لمحات میں ماضی کو یاد کرتا ہے۔ اس کے دماغ میں اس کی کُل عمر کی فلیش بیک ریل چلنے لگتی ہے۔ تمام اہم واقعات چند سیکنڈ کے دورانیے میں گھوم کر رہ جاتے ہیں۔ یہ تخیّل بنیادی طور پر مغرب سے آیا، وہاں کے ادیبوں نے اس سائنسی دریافت کو اپنے اداس ناولوں اور افسانوں میں استعمال کیا کہ آخری لمحات میں دماغ کے اندر زندگی کی پوری فلم فاسٹ فارورڈ ہونے لگتی ہے۔ شرت چندر کے اس ناول پر استاد بمل رائے نے 1955ءمیں فلم بنائی جس کے ہیرو دلیپ کمار تھے۔ بمل رائے نے کمال مہارت سے یہ ریل چلتے ہوئے دکھائی۔

آپ نے ہفتے کو میرے لیے راولپنڈی پہنچنا ہے، عمران خان کا کارکنوں کو پیغام

انسان کا پورا سفر، عہدِ طفلی سے عمر سفلی تک خسارے کی کہانی ہے۔ قرآن کی سورة العصر دیکھئے، تین آیات کی یہ سورة اس سفر کی حقیقت بھی بتائی ہے اور امید بھی دکھلاتی ہے۔ زمانے کی قسم، انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے لیکن انسان کا ماجرا یہ ہے کہ وہ گھاٹے کے سفر کو فائدے کا سودا سمجھتا ہے۔ اربوں کھربوں کمانے کی دوڑ میں دوگز زمین میں چھپ جاتا ہے۔ ٹالسٹائی کا مشہور ترین افسانہ دو گزر زمین کو بھی اس سورة کے ایک جزو کی تفسیر سمجھئے۔

________

ہمارا یہ ستر سال کا سفر گھاٹے کا........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play