پی ٹی آئی کا بیان نظر سے گزرا۔ سرخی ہے کہ لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی خاتمہ ہو چکا ہوگا۔ خاتمہ مگر کس کا؟ لانگ مارچ کا؟ متن پڑھ کر پتہ چلا کہ چوروں اور ڈاکوﺅں کے اقتدار کے خاتمے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

لیکن لانگ مارچ ہے کہاں؟ .... لاہور سے اسلام آباد والا لانگ مارچ تو کب کا ختم ہو چکا۔ اب اس روٹ پر ہر روز ایک جلسہ کے حساب سے سیاسی منورنجن پروگرام جاری ہے۔ لوگ بہت زیادہ نہیں ہیں بلکہ خاصے کم کہا جائے تو بھی ٹھیک ہے۔ البتہ وہ لانگ مارچ ابھی ہونا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ راولپنڈی سے شروع ہوگا۔ تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا‘ لیکن کہا جا رہا ہے کہ 19‘ 20 یا 21 تاریخ کو یہ مارچ شروع ہوگا۔ شروع ہوکر کہاں جائے گا؟ کچھ کا کہنا ہے کہ پنڈی سے شروع ہوکر پنڈی ہی میں ختم ہو جائے گا۔ کچھ اور یہ بتاتے ہیں کہ نہیں‘ اسلام آباد جائے گا۔

اس ملک کا سزا یافتہ آدمی اور جھوٹ بولنے والا شخص اس تعیناتی کا فیصلہ کر رہا ہے، عمران خان

جس منصب دار کی ریٹائرمنٹ رکوانا اس مارچ کا مقصد بتایا جاتا ہے‘ اس کی ریٹائرمنٹ کا تو اعلان بھی ہو گیا۔ انہوں نے الوداعی ملاقاتیں بھی شروع کر دی ہیں۔ اس عمل کو قہقری کیسے بنایا جائے گا( نوٹ: قہقری کو اردو میں ریورسل یا ریورس کرنا کہتے ہیں)؟۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ پی ٹی آئی والوں نے البتہ یہ کہا ہے کہ چلئے اس ریٹائرمنٹ کو تو نہیں روک سکتے‘ لیکن نئی تقرری کو ضرور روکیں گے۔ نوازشریف کی مرضی نہیں چلنے دیں گے۔ اپنی مرضی منوائیں گے۔ گویا نئی تاریخ لکھیں گے جو بات کبھی نہیں ہوئی‘ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوئی۔ وہ کرکے دکھائیں گے۔ اپنی پسند کا منصب دار لائیں گے۔

میکسیکو کے نائٹ کلب میں مسلح افراد کا حملہ،نو افراد ہلاک

................

مقصد پورا کرنے کیلئے ایک مورچہ بندی پی ٹی آئی نے مارچ کے علاوہ اور بھی کی تھی۔ جگہ جگہ سڑکیں بند کر دی تھیں اور سڑکوں کی بندش کا یہ مورچہ کارکنوں کی کثرت تعداد یا انبوہ کثیر کے بل پر نہیں لگایا گیا تھا بلکہ پنجاب اور پختونخوا پولیس کی سرپرستی بلکہ تحفظ تلے راستے بند کئے گئے تھے۔ چار پانچ کارکن آتے تھے‘ سڑک کے بیچ کرسیاں بچھا کر بیٹھ جاتے تھے اور سڑک بند ہو جاتی تھی۔ کسی اور سڑک پر دو ٹائر جلائے‘ ٹریفک بند‘ تیسری شاہراہ پر دو گاڑیاں آڑھی ترچھی کرکے کھڑ ی کر دیں‘ سڑک رک گئی۔

نیوزی لینڈ سے آسٹریلیا کیلئے نکلنے والی کروز شپ میں کورونا پھیل گیا

اس دوران بہت سے واقعات ایسے ہوئے جنہوں نے دھوم مچا دی۔ کہیں ایمبولینس رک گئی‘ کہیں سکول کے بچے پھنس گئے اور رونے لگے۔ کہیں خواتین سے دھینگامشتی کی گئی‘ کہیں بزرگوں کو کھری کھری سنائی گئیں۔ سوشل میڈیا پر یہ سب چلا اور خوب وائرل ہوا۔ ملک بھر کے عوام نے داد دی‘ لیکن پی ٹی آئی اپنے عزم قائم رہی۔ یہاں تک کہ پھنس جانے والوں نے موقع پر ہی ناکہ بندی کرنے والی اس سپاہ انقلاب کی جا بجا دھلائی کرنا شروع کر دی۔ پوری رپورٹ پارٹی والوں نے قائد انقلاب کوسنائی تو انہیں اندازہ ہوا کہ معاملہ گڑ بڑ ہو گیا ہے۔ چنانچہ حکم جاری ہواکہ جہاں جہاں ”دھرنے“ ہیں‘ ختم کر دیئے جائیں۔ صرف پنڈی والا دھرنا رکھا جائے۔ وہاں بھی پھنس جانے والے عوام نے سرسری سماعت کے بعد انقلابیوں کے مزاج دریافت کئے تو وہاں سے بھی دھرنا اٹھا دینے کا اعلان ہو گیا۔

تبوک، جنگل میں کھو جانے والا آٹزم کا شکار بچہ 24گھنٹوں میں باحفاظت تلاش کر لیا گیا

یوں یہ دھرنا بند انقلاب تائید عامہ کی نذر ہوا۔ اب خان صاحب بیٹھے جمع تقسیم کر رہے ہیں کہ عوامی مقبولیت کے کنٹینر میں کہاں کہاں ڈینٹ پڑ گئے۔ قاتلانہ حملہ ایک سانحہ تھا۔ اوپر سے یہ سانحہ ہوگیا کہ عوام کے ذہنوں میں اس سوال کی خلش کانٹا بن کر گھس گئی کہ اس واقعے میں سچائی کتنی تھی‘ فسانہ کتنا۔

................

قاتلانہ حملے کے موقع پر سرکار کی طرف سے ریسکیو کا ایک اہلکار بھی متعین تھا کہ ضرورت پڑنے پر ریسکیو آپریشن میں مددگار ہوسکے۔ جب مخبوط الحواس حملہ آور نے برسٹ چلایا تو کنٹینر پر کھڑے جملہ حضرات بشمول قائد انقلاب گر پڑے۔ اہلکار نے کہ جس کا نام رضوان تھا‘ خان صاحب کی خبر گیری کی اور دیکھا کہ گھٹنے کے اوپر سے خون رس رہا ہے۔

بھارت،سوشل میڈیا زیادہ استعمال کرنے پر شوہر نے بیوی کی جان لے لی

یہی بات اس نے صحافی کے کیمرے کے سامنے بتا دی کہ ایک زخم لگا۔ مزاج گرامی مکدر ہو گیا۔ اہلکار کو کہا گیا کہ بیان واپس لے اور نیا بیان دے کہ چار زخم دیکھے۔ انکار کر دیا تو اسے معطل کر دیا گیا۔ اس نے بیان پھر بھی نہ بدلا تو نوکری سے ہی برطرف کر دیا گیا۔

یہ ”انصاف“ اسے دنوں میں ملا ہے

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی

بہت بے ادب ہوں‘ سزا چاہتا ہوں

خود طلب کردہ سزا کا کیا علاج! بہرحال‘ خان صاحب کا یہ دعویٰ یاد آرہا ہے کہ جس ملک میں انصاف کی حکمرانی نہ ہو‘ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ اسے حقیقی آزادی کبھی نہیں مل سکتی۔

................

روس یوکرائن جنگ کے اپ ڈیٹ مزے دار ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس اداروں نے بتایا ہے کہ اب تک روس کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک و زخمی کا بریک اپ یہ ہے کہ 60 ہزار سے زیادہ ہلاک اور 40 ہزار سے زیادہ زخمی۔ روس جیسے ملک کیلئے جس کی کل فوج پانچ چھ لاکھ ہو‘یہ خاصا بڑا نقصان ہے۔ ادھر روس کی فوج اہم مشرقی شہر خیر سون سے بھی پسپا ہو گئی۔ یہی نہیں‘ 13 مزید مقبوضہ قصبات اور دیہات بھی یوکرائنی فوج نے آزاد کرا لئے ہیں۔ امریکہ نے کہا ہے کہ روس کو جنگ میں کافی مسائل کا سامنا ہے۔ کافی نہیں‘ کافی سے زیادہ۔

جنگ جلد یا بدیر ختم ہو جائے گی‘ یوکرائن کی تباہی کا ازالہ مغربی ممالک کی امداد سے ہو جائے گا۔ تعمیرنو بھی ہو جائے گی۔ روس کا کیا بنے گا۔ اس کی معیشت اندازوں سے زیادہ زوال آشنا ہوئی ہے۔ بیروزگاری اور قمیتیں بڑھی ہیں۔ نوجوان طبقہ ملک سے فرار ہورہا ہے۔ جو ملک میں ہیں‘ ان میں بددلی پھیلی ہے۔ پیوٹن کو آخر کیا سوجھی تھی‘ کبھی نہ کبھی اکیلے میں سوچیں گے تو ضرور!

QOSHE - دھرنوں کی مزاج پرسی - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists . News Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

دھرنوں کی مزاج پرسی

6 1 1
13.11.2022

پی ٹی آئی کا بیان نظر سے گزرا۔ سرخی ہے کہ لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی خاتمہ ہو چکا ہوگا۔ خاتمہ مگر کس کا؟ لانگ مارچ کا؟ متن پڑھ کر پتہ چلا کہ چوروں اور ڈاکوﺅں کے اقتدار کے خاتمے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

لیکن لانگ مارچ ہے کہاں؟ .... لاہور سے اسلام آباد والا لانگ مارچ تو کب کا ختم ہو چکا۔ اب اس روٹ پر ہر روز ایک جلسہ کے حساب سے سیاسی منورنجن پروگرام جاری ہے۔ لوگ بہت زیادہ نہیں ہیں بلکہ خاصے کم کہا جائے تو بھی ٹھیک ہے۔ البتہ وہ لانگ مارچ ابھی ہونا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ راولپنڈی سے شروع ہوگا۔ تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا‘ لیکن کہا جا رہا ہے کہ 19‘ 20 یا 21 تاریخ کو یہ مارچ شروع ہوگا۔ شروع ہوکر کہاں جائے گا؟ کچھ کا کہنا ہے کہ پنڈی سے شروع ہوکر پنڈی ہی میں ختم ہو جائے گا۔ کچھ اور یہ بتاتے ہیں کہ نہیں‘ اسلام آباد جائے گا۔

اس ملک کا سزا یافتہ آدمی اور جھوٹ بولنے والا شخص اس تعیناتی کا فیصلہ کر رہا ہے، عمران خان

جس منصب دار کی ریٹائرمنٹ رکوانا اس مارچ کا مقصد بتایا جاتا ہے‘ اس کی ریٹائرمنٹ کا تو اعلان بھی ہو گیا۔ انہوں نے الوداعی ملاقاتیں بھی شروع کر دی ہیں۔ اس عمل کو قہقری کیسے بنایا جائے گا( نوٹ: قہقری کو اردو میں ریورسل یا ریورس کرنا کہتے ہیں)؟۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ پی ٹی آئی والوں نے البتہ یہ کہا ہے کہ چلئے اس ریٹائرمنٹ کو تو نہیں روک سکتے‘ لیکن نئی تقرری کو ضرور روکیں گے۔ نوازشریف کی مرضی نہیں........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play