26 ویں آئینی ترمیم کے معرکے میں کس نے کیا کھویا کیا پایا پر بات کرتے ہوئے گزشتہ کالم ہم تحریک انصاف پر بات کر چکے ہیں۔
ان ترامیم سے مسلم لیگ ن کے دامن میں اتنا نہیں آیا جتنا وہ توقع کیے بیٹھی تھی، انھوں نے تھوڑا پایا اور زیادہ کھویا۔ سیاسی چہرہ مزید داغدار ہوا۔ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرنے پر اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں بھی اپنا مقام کھو دیا۔ مگر کہا جاسکتا ہے کہ ترمیمی بل پاس ہونے پر حکمران جماعت کو فیس سیونگ کا موقع مل گیا۔ پیپلز پارٹی کی پوزیشن مسلم لیگ ن سے کافی بہتر رہی، تحریک انصاف کے بعد بلاول بھٹو زرداری مولانا کے نقادوں میں سے بڑے نقاد تھے انھوں نے نہ صرف مولانا جیسے زیرک سیاستدان کا قرب اور اعتماد حاصل کیا بلکہ مولانا کی کشتی میں سوار ہو کر قومی اتفاق رائے کی بات کرنے لگے، پہلی بار اپنے والد کے انداز سیاست کو لے کر چلے اور اپنے بارے میں ایک زیرک سیاستدان کا تاثر دینے میں کامیاب ہوئے، بلاول بھٹو زرداری نے مولانا کے گھر میں ایسے ڈیرے ڈالے کہ تحریک انصاف کی قیادت سے بھی وہاں ملاقات ہوگئی جو سیاسی اعتبار سے بڑی پیش رفت ہے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے کھونے سے زیادہ پایا۔
اب آتے ہیں مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت کی طرف تو یہ زبان زد عام ہے کہ مولانا نے پایا ہی پایا ہے، وہ بھی پایا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اور شاید خود مولانا کوبھی اتنا کچھ پانے کی توقع نہیں تھی، انھوں نے آگ اور پانی کو ملایا، بکری اور شیر کو ایک گھاٹ پر پانی پلایا اور ایک مدبر، دانا اور بزرگ سیاستدان ہونے کا رول ادا کرتے ہوئے ملک کو ایک بڑے آئینی بحران سے بچایا۔ ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملانے والے سیاسی حریفوں کو قریب لانے میں کامیاب ہوئے۔ اگر چہ یہ ترامیم متفقہ نہیں مگر اس پر وہ قومی اتفاق رائے پیدا کر کے آگے بڑھے، عوامی سطح پر جو پذیرائی ان کو ملی وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے........