الوداع 2023

[email protected]

خزاں، دسمبر، سردیاں اور نیا سال اس کی دہلیز پر منتظر۔ یہ ہے آج کے دن کی داستان، دسمبر کے لبادے میں اپنے آپ کو اوڑھ کے وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے، سال 2023 آج رات ماضی ہوگا اور جو مستقبل تھا، 2024 وہ حال ہوگا۔

ماضی، حال اور مستقبل، وقت کے تین پہلو ہیں۔ یا یہ وہ کل ہے جس میں پورا وقت پڑا ہے۔ جو ہو ا ہے، جو ہورہا ہے اور جو ہونا ہے۔ سمے کے اس کاروبار کو اپنے لاشعور سے باہر لاکے شعوری زاویوں سے جو دیکھنا کہ لمحہ ہے وہ یہی ہے۔ آج کا دن، آج کی شام اور آج کی رات، 365 دنوں میں یا ان 365 صفحات پر مبنی اس دفتر کا یہ آخری صفحہ ۔شاید فیض نے اس دن کی نسبت یہ سطریں لکھی ہونگی۔

یہ دھوپ کنارا شام ڈھلے

ملتے ہیں دونوں وقت جہاں

جو رات نہ دن جو آج نہ کل

پل بھر کو امر پل بھر میں دھواں

آج کی رات گھڑی کی سب سوئیاں جب بارہ کے ہندسے تک پہنچیں گی، اس شام کا سورج رات کا کمبل لیے سوجائیگا۔ جب سحر کے دامن پر پھوٹے گی اور سورج کل کمبل سے باہر نکل آئیگا، یہ دن،ماہ وسال بند ہونگے۔ وقت قدرت کی کل داستان ہے، تخلیق ہے ’’کن فیکون‘‘ ہے۔

ہم مقید ہیں اس زماں و مکاں میں، پل دو پل کی اس داستان میں۔ زرد پتوں کا بن ہے۔ کافکا کی ان سطروں کی مانند ’’میں کے ہوں کوئی راہ پت جھڑ کے موسم کی، لو ابھی اپنا دامن صاف کیا تھا کہ پھر زرد پتوں سے بھر گئی ہوں۔ـ‘‘ مجھے یہ لکھنا تو آئیگا ہی نہیں کہ یہ جانے والا سال کیا گل کھلا گیا اور کتنے چراغ بجھا گیا، ملک کی سیاست میں، معیشت میں،کیا ہوا، دنیا میں کیا ہوا۔ ہاں !لیکن مجھے جو لکھنا آتا ہے وہ آپ کے سامنے ہے، موضوعی سے پہلو ہیں، معروضی نہیں۔

ایک نگاہ ہے دیکھنے کی، کائنات کے گھنٹہ گھر میں لوٹ جانے کی، کسی شاعر کی طرح، مورخ کی آنکھ بھی ہوں کسی فلاسفر کی سوچ کا دائرہ بھی۔ ایک فقیر منش کا دل بھی ہوں۔ کوئی عشق مسافر بھی ہوں، تو کسی شکست دل کی کہانی........

© Express News