اسرائیل نواز آکٹوپس کے حریف (قسط پنجم)
عربوں نے امریکا ( یو ایس اے ) میں اٹھارہ سو اسی کے بعد بسنا شروع کیا۔ ان کی موجودہ آبادی سینتیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ان میں سے پچاسی فیصد شہری پیدائشی امریکی ہیں۔ویسے تو ان کے نسلی ڈانڈے مشرقِ وسطی ، شمالی و وسطی افریقہ سمیت بائیس ممالک سے ملتے ہیں مگر سب سے بڑی اور پرانی تعداد شامی و لبنانی عربوں کی ہے جنھوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے آخری دور میں براعظم امریکا کی جانب ہجرت شروع کی۔زیادہ تر نے لاطینی امریکا کا رخ کیا اور تجارت و کاروبار میں نام کمایا۔جب کہ ریاستہائے متحدہ امریکا میں بسنے کا رجحان دوسری عالمی جنگ کے بعد کی ہجرتی لہر کے سبب بڑھ گیا۔ شامیوں اور لبنانیوں کے بعد آپ کو زیادہ تعداد میں مصری ، فلسطینی اور عراقی نسلی جڑوں والی عرب آبادی ملے گی۔انیس سو اسی تا دو ہزار بائیس کے عرصے میں امریکا کی عرب آبادی تگنی ہو گئی ہے۔
امریکی عربوں کی پچھتر فیصد آبادی بارہ ریاستوں میں بستی ہے ( کیلی فورنیا ، مشی گن ، نیویارک ، ٹیکساس ، فلوریڈا ، الی نائے ، نیو جرسی ، اوہائیو ، منی سوٹا ، ورجینیا ، میسا چوسٹس ، پنسلوینیا )۔ان میں سب سے زیادہ عرب آبادی ریاست مشی گن میں ہے (دو اعشاریہ ایک فیصد)۔پچانوے فیصد عرب آبادی شہروں میں بستی ہے۔ شہروں کی حد تک علی الترتیب نیویارک ، ڈیٹرائٹ ، لاس اینجلس ، شکاگو ، واشنگٹن ڈی سی اور منیاپولس سرِ فہرست ہیں۔گزشتہ چودہ برس میں نئے عرب تارکینِ وطن کا تعلق پانچ ممالک (عراق، مصر ، صومالیہ ، یمن ، شام ) سے ہے۔ان کی آمد سے امریکا کی عرب آبادی میں تیس فیصد اضافہ ہوا۔
آبادی میں اضافے سے سیاسی اہمیت اور ووٹ بینک کی طاقت بھی بڑھی ہے........
© Express News
visit website