توازن
[email protected]
توازن حسن پیدا کرتا ہے۔ توازن بگاڑ اور انتشار کا راستہ روکتا ہے۔ توازن سے ہی کائنات کا حسن ہے، انسانی معاشرے کا حُسن بھی توازن سے ہی قائم رہ سکتا ہے۔ جدید دور میں جمہوری ملکوں کا نظام درستگی کے ساتھ چلانے کے لیے ہر ملک کے آئین میں اداروں کے درمیان توازن کو یقینی بنایا گیا ہے۔ توازن، امورِ مملکت کی رکاوٹیں دور کرتا اور انھیں آسان بناتا ہے، توازن سیاسی استحکام کو یقینی بناتا ہے، ترقّی کا پہیّہ تیز کرتا ہے اور باشندوں کے لیے امن اور خوشحالی لاتا ہے۔آج کے مروّجہ جمہوری نظام میں ریاست کے تین ستونوں یا بڑے قومی اداروں یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم توازن کو یقینی بناتی ہے۔ پچھتّر سال عمر والے اداروں کی ایک دوسرے کی حدود میں دخل اندازی کوئی اچنبے کی بات نہیں، یورپ میں بھی سالہا سال کی آویزش کے بعد قومی ادارے اپنے دائرۂ کار تک محدود ہوئے تھے۔
وطنِ عزیز میں سول انتظامیہ پچھلی چار دھائیوں میں اپنی ناقص کارکردگی، نااہلی اور کرپشن کے باعث اپنی ساکھ اور اختیارات وطاقت کھوچکی، اور اس کی جگہ اسٹیبلشمنٹ اور نظام انصاف نے لے لی۔ مقننہ اور عدلیہ کے پاس آئینی اور قانونی اختیارات ہیں جب کہ فزیکل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان طاقتور اداروں میں باقی تمام اداروں کو اپنا فرمانبردار یا مددگار بنانے کی خواہش بھی جڑ پکڑ چکی ہے اور کسی حد تک اس کے نظرئیے کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اگر ادارے اپنے طے شدہ دائروں میں رہ کر کام کریں گے تو توازن قائم ہوگا جو سیاسی استحکام کا موجب بنے گا مگر کسی دوسرے ادارے کے قانونی اختیارات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے گا اور اسے subservient بنانے کی کوشش کی جائے گی تو توازن بگڑ جائے گا جس سے ملک انتشار، بدامنی اور انارکی کا شکار ہو گا۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ انتظامیہ اور مقنّنہ نظام عدل اور اسٹیبلشمنٹ کی اطاعت قبول کرچکی اور اب قلعۂ عدل اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈر اسٹیبلشمنٹ کے اتحادی بن چکے اورعدلیہ کے ایک حصے پر مسلسل تیر برساتے رہتے ہیں۔ عدلیہ کا قلعہ اندرونی تقسیم کے باعث........
© Express News
visit website