[email protected]
دو لفظ کبھی میری سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ ایک ’’جنریشن گیپ‘‘ جس کا کچھ عرصہ قبل بڑا شور تھا۔ پڑھے لکھے لوگ اس پر زیادہ بات کرتے تھے، لیکن مجھے کبھی اس لفظ کا ادراک نہیں ہوا، کیونکہ ہمارے گھر میں والدین اپنے بچوں سے اور ہم سب بہن بھائی اپنے تمام مسائل والدین اور دادی سے شیئر کرتے تھے۔
بھائیوں نے بھی اپنی اولاد کے ساتھ وہی رویہ اپنایا۔ میرا اور میرے شوہر کا بھی رویہ اپنے بیٹے سے دوستانہ رہا، آج تک وہ ہر بات مجھ سے شیئر کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں کبھی جنریشن گیپ سے واسطہ نہیں پڑا۔ دوسرا لفظ ہے ’’ ڈپریشن‘‘۔ میں جب بھی اس لفظ کو سنتی، عجیب سا لگتا ، لیکن جب میں خود ڈپریشن کا شکار ہوئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ڈپریشن تو باقاعدہ ایک بیماری ہے جس کا سائیکاٹرسٹ اور ماہر نفسیات علاج کرتے ہیں۔
ایلوپیتھک اور ہومیو پیتھک دونوں میں اس کا علاج موجود ہے، لیکن سب سے زیادہ ضروری اس میں کاؤنسلنگ ہے۔ ماہر نفسیات کاؤنسلنگ ہی کرتے ہیں، لیکن انسان خود بھی اپنی کاؤنسلنگ کرسکتا ہے۔
یوں دیکھیے تو ہر تیسرا آدمی ڈپریشن کا شکار ہے۔ پہلے یہ بیماری یورپ اور امریکا میں زیادہ ہوتی تھی، بڑی عمر کے لوگ اس کا زیادہ شکار ہوتے تھے کہ وہاں اپنے والدین کو یا دادا، دادی کو دینے کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا، بوڑھے ماں باپ کو اولڈ پیپلز ہوم میں داخل کرا دیتے تھے، وہ اپنوں سے دور ہو کر تنہائی کا شکار ہو جاتے تھے، لیکن ہمارے ہاں صورت حال بہت ابتر ہے۔
شہروں کے رہنے والے ڈپریشن کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ پاکستان میں تو سبھی ڈپریشن کا شکار........