ماں بولی کا عالمی دن اور بنیادی حقوق
[email protected]
تاریخ کے پنے معروض کے وقت کو حقائق کی نظر سے دیکھنے کے بعد واقعے کو نہایت ایمانداری سے جوں کا توں اس وقت کی اور آنے والی نسل کے حوالے کر دیتے ہیں تاکہ عوام واقعے کی تحقیق کے بعد غور فکر کے ذریعے وقت کے سچ کی روشنی میں ظالم اور مظلوم کا فیصلہ کر سکیں۔
تاریخ کے اوراق میں آج ’’ماں بولی‘‘ کے یوم کی گونج میں ایک ایسے واقعے کی طرف قارئین کی توجہ چاہتا ہوں،جو واقعہ ’’ماں بولی دن‘‘ کی بنیاد قرار پایا،یہ واقعہ 1952 کے پاکستان کا ہے جب سویلین بالادستی کے دوراہے پر نو آزاد ملک کے سیاست دان ملک کی سیاسی بالادستی قائم کرنے میں جتے ہوئے تھے،وہ 21فروری 52 کا وہ بدنصیب دن تھا جب مشرقی پاکستان کے طلبہ اپنی ماں بولی’’بنگالی زبان‘‘ کا حق سرکاری زبان کے مقابلے میں مانگ رہے تھے۔
گویا1952 میں اسی تاریخ کو ڈھاکہ میں بنگالی بولی کو مرحوم مشرقی پاکستان کی (اردو کے ساتھ دوسری) سرکاری زبان تسلیم کرانے کے حق میں مظاہرہ کرنے والے یونیورسٹی کے بنگالی طلبہ پر گولی چلا کر بنگلہ دیش کے قیام کی بنیاد رکھ دی گئی تھی،اس واقعہ میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے مین گیٹ پر ریاستی پولیس کی اس بلاجواز فائرنگ سے 5 نوجوان (سلام، برکت، رفیق، جبار اور شفیع) جاں بحق ہوگئے تھے جب کہ سیکڑوں طلبہ بے یارومددگار زخمی پڑے تھے۔
دنیا میںماں بولی کی اہمیت سمجھتے ہوئے1999 میں یونیسکو نے ریاستی بربریت کی نذر ہونے والے بنگالی طلبہ کو اپنے بنیادی حقوق کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے پر خراجِ تحسین پیش کیا اور 21 فروری کی تاریخ کو ’’انٹرنیشنل ڈے آف مدر لینگویجز‘‘ قرار دے دیا، جس کی توثیق 2005 میں اقوام متحدہ نے کی اور دنیا بھر میں ماں بولی کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں ڈھاکہ یونورسٹی کے طلبہ کی قربانیوں........
© Express News
visit website