’سیاسی رہنماؤں کو ’سیکیورٹی رسک‘ قرار دینا قومی سلامتی کو کمزور کرتا ہے‘
ملک میں سیاسی رہنماؤں کو غدار اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا کوئی نئی بات نہیں، یہ عمل ہماری سیاسی قوت کے کھیل کا دیرینہ حصہ ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی بڑا سیاسی رہنما چاہے وہ اعلیٰ ترین ریاستی عہدہ سنبھال چکا ہو ایسی توہین سے محفوظ رہا ہو۔
اس فہرست میں تازہ اضافہ جیل میں قید سابق وزیرِاعظم عمران خان کا ہے، جنہیں آئی ایس پی آر کے سربراہ نے ’سکیورٹی تھریٹ‘ اور ’خیالی دنیا میں رہنے والا شخص‘ قرار دیا ہے۔ یہ لیبل ایسے شخص پر لگایا گیا ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک ملک کا سب سے بڑا سیاسی عہدہ سنبھالے ہوئے تھا اور آج بھی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کا سربراہ ہے، یہ بات تشویش ناک ہے۔
یہ تبصرے عمران خان کی جانب سے سوشل میڈیا پر انتہائی اشتعال انگیز بیانات کے بعد سامنے آئے، مگر سلامتی کے اداروں کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس حوالے سے عوامی سطح پر لفظی جنگ میں پڑیں۔
کسی بھی سیاسی رہنما کو ‘سکیورٹی رسک’ یا ‘غدار’ قرار دینا کسی بھی جواز سے درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا، مگر بہت سے مسلم لیگ (ن) کے وزرا بھی اپنے سیاسی مخالف کے خلاف اس مہم میں شامل ہوگئے ہیں، بھول کر کہ کچھ سال قبل یہی کچھ ان کے اپنے قائد کے ساتھ بھی ہوا تھا۔
نواز شریف کو 2016 میں ’ڈان لیکس‘ کے معاملے پر بدترین الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ سلامتی کے حلقوں کی جانب سے کوئی عوامی اعلان نہیں کیا گیا تھا، مگر اس وقت ایک منظم مہم ایک بیٹھے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف چلائی گئی، جس نے انہیں طاقت کے مراکز کے ساتھ براہِ راست محاذ آرائی میں دھکیل دیا۔ نہ صرف انہیں ایک وزیر اور ایک خصوصی مشیر کو........





















Toi Staff
Sabine Sterk
Penny S. Tee
Gideon Levy
Waka Ikeda
Grant Arthur Gochin
Daniel Orenstein