بُک ریویو: کتھائیں جادوگر بستیوں کی

میں طویل عرصے میں اردو زبان میں لکھے گئے سفر ناموں سے متعلق شدید مایوسی کا شکار ہوں۔ ایک فکشن رائٹر ہیں جو سفرناموں کی صنف میں غلبہ حاصل کیے ہوئے ہیں اور سالانہ بنیادوں پر اپنے کتابیں شائع کررہے ہیں۔ ان کی کتابیں فکشن معلوم ہوتی ہیں کیونکہ وہ جن علاقوں کی سیاحت کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کے بارے میں انہیں درست معلومات بھی نہیں۔

یہ سفرنامے ایسی کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں کہ جن میں زیادہ تر کوئی مغربی خاتون لکھاری میں دلچسپی لیتی ہیں لیکن ایک اچھے انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے لکھاری انہیں رد کردیتے ہیں۔

درحقیقت یہ کتابیں چوتھی جماعت کے بچوں کے ان مضامین کی طرح ہیں جو وہ موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد اپنے اساتذہ کو پیش کرتے ہیں۔ اس صنف کی کتابوں میں قارئین کی دلچسپی تیزی سے ختم ہورہی ہے، لہٰذا محدود آپشنز دستیاب ہونے کی وجہ سے قارئین انہیں پڑھ رہے ہیں اور پھر تعجب کی بات نہیں کہ ایسے سفرنامے پڑھنے والے لوگ کاغان کی جھیل سیف الملوک کی چاندی راتوں میں پریوں کو تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں! جب تخیلات حقیقت کا روپ نہیں دھارتے تو وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

سفرناموں کے مصنفین کو مؤرخ، ماہرِ جغرافیہ، ماہرِ ماحولیات ہونا چاہیے جسے تھوڑی بہت معلومات ارضیات اور سماجیات کی بھی ہوں۔ اس سب کے بعد وہ یہ بھی جانتے ہوں کہ سوانح عمری کیسے لکھے جاتے ہیں۔ سفرنامے کتابوں کی ایسی صنف ہے جسے ایک بار نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بار بار پڑھا جاتا ہے۔ ماضی میں ڈاکٹر مبارک علی اور سبطِ حسن دو قابلِ قدر نام تھے جو سفرناموں کی دنیا کو روشن والے چراغ کی مانند تھے۔ موجودہ دور میں یہ بدین سے تعلق رکھنے والے ابوبکر شیخ ہیں۔

اپنی پہلی کتاب ’نگری........

© Dawn News TV