نوٹ: عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کی قیادت میں تالیف کی گئی کتاب ’دی کلائمیٹ بُک‘ جس میں دنیا کے معروف لکھاریوں کے موسمیاتی تبدیلی پر 100 مضامین شامل ہیں، اس کا اردو ترجمہ سلسلہ وار ڈان نیوز ڈیجیٹل پر شائع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کے دیگر مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
سوال یہ ہے کہ ابتدا میں جب چند لوگ جانتے تھے کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے تو انہوں نے یہ بات سب کو بتائی کیوں نہیں؟ اس سوال کا جواب بہت دلچسپ اور حیران کُن ہے۔
درحقیقت کچھ بڑی کمپنیز نہیں چاہتی تھیں کہ یہ مسئلہ حل ہو کیونکہ یہ کمپنیز فوسل فیول فروخت کرکے بھاری منافع کماتی تھیں جبکہ زمین کا درجہ حرارت کم کرنے کے لیے فوسل فیول کو بطور ایندھن جلانے کی حوصلہ شکنی ضروری تھی۔ بس اسی لیے انہوں نے لوگوں کو گمراہ کیا اور کہا کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھنا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے سائنسدانوں کی بات نہیں مانی اور ہر طرح سے یہ بات عام کی کہ لوگوں کو اس حوالے سے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ایسا کہنا ہے ہاروڈ یونیورسٹی کے تاریخ، ارضیات اور فلکیاتی سائنس کے پروفیسر ناومی اوریسکس کا، جو گریٹا تھیونبرگ کی کتاب ’دی کلائمیٹ بک‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں یہ سوال کہ ’موسمیاتی تبدیلی روکنے کے لیے کچھ کیا کیوں نہیں گیا‘، کے جواب میں اُن تمام کمپنیز اور گروہوں کو بے نقاب کرتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کو عرصے تک جھٹلاتے رہے۔ مزید تفصیل ان ہی کی زبانی سنتے ہیں۔
تیل کی ایک بہت بڑی کمپنی ایکسون موبیل اس کام میں پیش پیش تھی۔ 50 برس قبل اس کمپنی کے اپنے سائنسدانوں نے بھی کہا تھا کہ تیل جلانے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہاہے لیکن کمپنی نے لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے بجائے یہ تاثر دیا کہ سائنسدان بھی اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی واقعی ہوبھی رہی ہے یا نہیں۔
—تصویر: میٹا اے آئیایکسون موبیل وہ کمپنی ہے جسے تیل و گیس کی بڑی کمپنیز پر مشتمل ایک ایسے گروپ میں کلیدی حیثیت حاصل ہے جسے ’کاربن خارج کرنے والا گروہ‘ کہا جاتا ہے۔ اس گروہ نے لوگوں کو گمراہ کیا اور امریکی حکومت کو فوسل........