پاکستان کی مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں بڑھتی دلچسپی کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟

پاکستان کی سوچ سمجھ کر بنائی گئی مشرق وسطیٰ کی حکمتِ عملی کے واضح ہونے کے ساتھ ہی بے یقینی کے بادل آہستہ آہستہ چھٹ رہے ہیں۔ اسلام آباد نے مشرق وسطیٰ کے خطے میں اپنے سیکیورٹی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یہ خواہش دو طرفہ اور کثیر الجہتی سطح پر سلامتی کے تعاون کے ذریعے سامنے آئی ہے۔

یہ بات سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدے پر دستخط سے ظاہر ہوتی ہے جس میں ایک ‘عرب-اسلامی ٹاسک فورس’ کے قیام کی تجویز دی گئی، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے میں ان کی حمایت کرکے، غزہ میں قائم بین الاقوامی استحکام فورس میں شمولیت اور قطر کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدے کی پیشکش بھی پاکستان کی حکمت عملی میں نمایاں ہیں۔

اسلام آباد کی مشرق وسطیٰ میں سیکیورٹی سرگرمیاں، اس کے لیے عالمی سطح پر متعلقہ رہنے کا اہم طریقہ بن چکا ہے۔ لیکن اس سے ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے، پاکستان مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں اعلیٰ کردار ادا کرنے کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟

سب سے پہلے پاکستان نے کئی عرب خلیجی ممالک کے ساتھ مضبوط ادارہ جاتی سیکیورٹی تعاون قائم کر لیا ہے۔ مثال کے طور پر، فوجی دستوں کی تعیناتی، بحری اور فضائی افسران کی تربیت، ہتھیاروں کی خریداری، مشترکہ فوجی مشقیں وغیرہ، وہ شعبے ہیں جہاں اسلام آباد اور بعض خلیجی ممالک کے درمیان پہلے ہی عملی تعاون موجود رہا ہے۔

پاکستان موجودہ ادارہ جاتی انفرااسٹرکچر کو مضبوط کرتے ہوئے اور نئے سیکیورٹی اقدامات شامل کرکے مشرق وسطیٰ میں اسٹریٹجک اہمیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سول اور عسکری قیادت میں یہ شعور بھی موجود ہے کہ ماضی میں پاکستان نے ایک اہم اسٹریٹجک موقع اس وقت گنوا دیا تھا کہ  جب اس کی پارلیمنٹ نے سعودی قیادت میں یمن کے خلاف مہم میں شمولیت کی دعوت کو مسترد کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

اسلام آباد اب یہ سمجھتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں غیر جانبداری کے اپنے فیصلے کی وجہ سے اس نے اہم اسٹریٹجک، اقتصادی اور سیاسی قیمت ادا کی۔ غیرجانبداری کی پالیسی نے پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت کو کمزور کیا اور........

© Dawn News TV