فیض حمید کی سزا: ایک غیر معمولی فیصلہ یا روایتی تسلسل؟ |
ایک سال سے زائد عرصے بعد گزشتہ ہفتے فیض حمید کی سزا کا اعلان کیا گیا، یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کسی کے لیے حیران کن تھا، جب گزشتہ سال ان کی گرفتاری کی خبر سامنے آئی تھی تو سزا تقریباً طے شدہ نظر آتی تھی۔ گزشتہ چند مہینوں میں بھی اس حوالے سے کئی لیکس سامنے آتی رہی تھیں کہ فیصلہ کسی بھی دن آ سکتا ہے۔
جو افراد طاقت کے مراکز تک رسائی نہیں رکھتے، ان کے لیے یہ سمجھنا آسان نہیں کہ اس سزا کا پاکستان، اس کے ریاستی ڈھانچے اور فوج کے لیے کیا مطلب ہے۔ اسی لیے اس سزا سے متعلق چند خیالات اور سوالات پیش کیے جا رہے ہیں، جو بلاشبہ غیر معمولی ہے، کیونکہ آئی ایس آئی کی قیادت کرنے والے کسی افسر کو اس سے قبل اس کے اپنے ادارے نے کبھی جواب دہ نہیں ٹھہرایا۔
تاہم یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں سول اور عسکری تعلقات پیچیدہ رہے ہیں، آئی ایس آئی کے سربراہان ہمیشہ تنازعات کی زد میں رہے ہیں۔ یہ زیادہ تر سیاسی اور طاقت کے تعلقات کا نتیجہ رہا ہے، نہ کہ محض افراد کا۔ اسد درانی سے لے کر حمید گل اور احسان الحق تک، یہ سب شخصیات میڈیا کی توجہ کا مرکز رہیں، حالانکہ اس دور کا میڈیا آج کے مقابلے میں خاصا محدود تھا۔
حالیہ دور میں شجاع پاشا آئے، جنہوں نے شاید اپنے سربراہ کے ساتھ توسیع کی روایت کو فروغ دیا۔ وہ میموگیٹ جیسے بحران میں بھی مرکزی کردار رہے، جہاں ان کا حلف نامہ تنازع اور عدم استحکام کا باعث بنا۔ اگرچہ آج انہیں زیادہ تر پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے اور مشہور........