menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

پاکستان میں ہجوم اب سڑکوں پر نہیں، اسکرین پر بنتا ہے!

6 0
19.12.2025

کئی دہائیوں تک پاکستان میں عوامی اجتماع ایک متوقع راستہ اختیار کرتا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں احتجاجی کال دیتیں، علما جلوسوں کا اعلان کرتے اور مزدور یونینیں مارچ منظم کرتیں۔ پولیس برسوں تک اسی طرز عمل پر انحصار کرتی رہی، قیادت سے مذاکرات، راستوں کی منصوبہ بندی اور ماضی کے تجربات کی بنیاد پر شدت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔

لیکن اب ملک بھر میں ہجوم اس انداز میں منظم نہیں ہوتا جیسا ہمارے ادارے تصور کرتے ہیں۔ وہ دور گزر چکا ہے۔

آج ہجوم سڑک پر آنے سے بہت پہلے ایک اسمارٹ فون کے اندر تشکیل پاتا ہے۔ کوئی مختصر ویڈیو، ایڈیٹ کیا گیا کلپ، وائس نوٹ یا واٹس ایپ پر فارورڈ ہونے والی افواہ کسی بھی سیاسی ہدایت سے کہیں زیادہ تیزی سے لوگوں کو متحرک کر سکتی ہے۔

ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پاکستان میں عوامی کو متحرک کرنے کے اصل انجن بن چکے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز کے الگورتھمز جذباتی مواد کو ترجیح دیتے ہیں، جیسے غصہ، اشتعال، مظلومیت کا احساس اور مذہبی جذبات، اور انہیں تیزی سے لاکھوں افراد تک پہنچا دیتے ہیں۔

لاہور میں تقریباً 11 ہزار 861 عوامی نظم و نسق کی کارروائیاں نمٹائی گئیں، جن میں سیاسی احتجاج، مذہبی جلوس، محرم و عاشورہ کی مجالس اور یومِ آزادی کی تقریبات شامل تھیں، جس کے بعد ایک حقیقت واضح ہو چکی ہے۔ ہجوم جسمانی طور پر بننے سے پہلے ڈیجیٹل طور پر تشکیل پاتا ہے۔ جب تک پولیس کی پہلی نفری کسی واقعے کی جگہ پہنچتی ہے، آن لائن جذباتی اشتعال پہلے ہی پیدا ہو چکا ہوتا ہے۔

یہ روایتی نہیں بلکہ الگورتھم کے ذریعے پیدا ہونے والی تحریک ہے۔

اس کی ایک نمایاں مثال گزشتہ سال پنجاب کالج برائے خواتین کے طلبہ میں پھیلنے والی جعلی زیادتی کی اطلاع تھی، جو لمحوں میں وائرل ہو گئی اور صوبے کے بڑے شہروں میں ہزاروں افراد کے جمع ہونے کا باعث بنی۔

ایک اور واقعے میں اکتوبر 2025 میں لاہور پریس کلب کے قریب فلسطین کے حق میں ہونے والا احتجاج ابتدا میں پُرامن رہا، مگر آن لائن اشتعال انگیز........

© Dawn News TV