آج چھ ستمبر ہے، اٹھاون برس پہلے بھارتی فوج نے پوری قوت کے ساتھ گذری نصف شب کے بعد کسی پیشگی وارننگ کے بغیر واہگہ کی بین الاقوامی سرحد عبور کر لی تھی کہ اسے چھمب جوڑیاں (کشمیر) سے ہاتھ دھونا پڑے کہ کئی روز سے جاری کنٹرول لائن پر جھڑپوں سے بھاتی فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ مبصرین کا خیال تھا کہ اگر یہ لڑائی چند روز جاری رہی تو بھارت کو کشمیر سے نکلنا پڑے گا تاہم بھارت نے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے وہ جنگ چھیڑ دی جو سترہ روز جاری رہی اور اس میں بھارتی افواج کو شدید نقصان اٹھانا پڑا،حملہ آور ہونے کی وجہ سے بھارت والوں کو اتنا فائدہ ہو گیا کہ ان کی فوجیں واہگہ عبور کر کے جلو تک اور ہڈیارہ نہر عبور کر کے برکی تک آ گئیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بھارتی افواج کے سربراہ کی طرف سے یہ بڑھک بھی ماری گئی کہ وہ لاہور جمخانہ کلب(باغ جناح) میں آ کر شراب پئیں گے اور پہلے روز ان کی طرف سے لاہور پر قبضے کا دعویٰ بھی کر دیا گیا،اس کے ثبوت میں لاہور اومنی بس سروس کی بسیں امرتسر کے بازاروں میں گھمائی گئیں، تب مقامی سفر کے لئے لاہور اومنی بس کے نام سے بسیں چلتی تھیں، اور ایک روٹ ریلوے سٹیشن سے واہگہ بارڈر تک تھا،رات کو جب بس سروس کا اختتام ہوتا تو چند بسیں واہگہ ٹرمینل پر بھی کھڑی رہتی تھیں کہ صبح کو باقاعدہ سروس شروع کی جا سکے، بھارتی افواج نے جب یہ بین الاقوامی سرحد عبور کی تو ٹینکوں کے ساتھ پیدل افواج پیچھے تھیں، ہماری طرف صرف معمول کے رینجرز تھے یقین یہ تھا کہ بین الاقوامی سرحد پر بلا چیلنج یا انتباہ حملہ ممکن نہیں، لیکن بھارت نے تب سے آج تک کسی قانون قاعدے اور آداب کا خیال نہیں رکھا، رینجرز نے جان لڑائی اور شہادت کا درجہ پا کر پیش قدمی میں رکاوٹ پیدا کی تاہم ٹینکوں اور بھرپور حملے کے جواب میں وہ روک تو نہ سکے البتہ اطلاع ضرور ہو گئی۔

حریم شاہ خود ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں چلاتی لیکن کوئی ان کی مرضی سےچلا رہا ہے: بلال شاہ نے سب کچھ بتادیا


ان دنوں سائیفن سے جلو موڑ پل تک کا علاقہ فرنٹیئر فورس، سڑک کے پل سے ر یلوے لائن تک3۔بلوچ رجمنٹ اور وہاں سے برکی تک پنجاب رجمنٹ کی دفاعی ذمہ داری تھی۔اگرچہ یہ حملہ رات کی تاریکی میں ہوا،اس کے باوجود ہماری مسلح افواج نے یہ یلغار بی آر بی نہر پر روک لی اور بھارتی نہ صرف یہ نہر عبور نہ کر پائے بلکہ جلو گاؤں سے جنوب کی طرف کا علاقہ محفوظ رہا،3۔بلوچ رجمنٹ کے جوانوں کی سربراہی تب لیفٹیننٹ کرنل تجمل ملک(جو میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے، وفات پا چکے) کر رہے تھے ان کے سیکنڈ اِن کمانڈ سینئر میجر نفیس انصاری تھے (یہ کرنل کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے، مرحوم ہیں) میجر انور شاہ، میجر نواز کمپنی انچارج تھے اور کیپٹن خالد نواز، کمانڈنٹ کے ساتھ ہوتے تھے(محترم لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے اور ریٹائر ہوئے،یہ جنرل پرویز مشرف سے ایک سٹیپ سینئر تھے) کیپٹن اقبال چیمہ(مرحوم) ایڈجوٹینٹ تھے۔میں سالہا سال سے معرکہ باٹا پور پر لکھتا چلا آ رہا ہوں کہ جنگ بندی کے بعد یہ اعزاز ہمیں (امروز) ملا کہ ہم اس ذمہ داری کے علاقے میں گئے اور ان دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور ہمیں 5/6 ستمبر اور اس کے بعد کے حالات سے براہ راست آگاہی ہوئی،ہمارا یہاں آنا جانا دیر تک رہا اور بہت مواد لکھنے کو ملتا رہا۔ میجر انور شاہ تو پُرمزاح شخصیت اور بہادر تھے۔ بقول تجمل حسین ملک جنگ کے دوران جلو گاؤں کا جنوبی حصہ(جہاں اب گھرکی ہسپتال ہے) آزاد تھا، ایک روز میجر انور شاہ نے اس طرف سے بی آر بی کو پار کیا اور اپنی کمپنی کے ساتھ مار دھاڑ کرتے ہوئے واہگہ سے بھی آگے چلے گئے،ان کو وائرلیس کر کے واپس بلانا پڑا تھا۔

ایشیا کپ، کرکٹ قوانین سے بے خبری افغان ٹیم کو لے ڈوبی، کوچ نے بھی اعتراف کرلیا


جنگ کے ان سترہ دِنوں کا احوال تو کئی بار لکھ چکا آج چند باتیں ایسی کرتا ہوں جو شاید قارئین کو پسند آئیں۔ 6ستمبر کو ہم معمول کے مطابق اٹھے، ناشتہ کیا اور دفتر (امروز)روانہ ہوئے،تب تک میری رہائش اکبری منڈی ہی میں تھی اور امروز کے دفاتر میو ہسپتال آؤٹ ڈور کے سامنے، ہم معمول کے مطابق ایڈیٹر ظہیر بابر کے کمرے میں بیٹھے تھے، مرحومین عبداللہ ملک، سید اکمل علیمی اور بدر السلام بٹ بھی موجود تھے اسی دوران ایک زور دار دھماکہ ہوا اور درو دیوار ہل گئے۔سب گھبرا کر باہر نکل آئے۔ ہم سب ہسپتال کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو گئے،اور جتنے منہ اتنی باتوں والا سلسلہ شروع ہو گیا،مجھے اچانک کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ یاد آ گیا۔جب ہم لارڈز ہوٹل مال روڈ میں چائے پی رہے تھے کہ ایسا ہی دھماکہ ہوا، لارڈز ہوٹل کے شیشے تک ٹوٹ گئے تھے۔بعدازاں معلوم ہوا کہ یہ ایف16کا دھماکہ تھا، جب یہ جہاز آواز سے زیادہ رفتار پکڑتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے اور اسے ”ساؤنڈ بیریئر“ کراس کرنا کہتے ہیں، میں نے جب یہ عرض کیا کہ ایف16 کا دھماکہ ہو سکتا ہے تو عبداللہ ملک ناراض ہو گئے اور ڈانٹ کر کہا،”جاؤ جا کر دیکھو، غالباً گوالمنڈی میں کوئی بم گرا ہے“۔بعدازاں معلوم ہوا کہ ایئر فورس نے واہگہ پر پاک فوج کی مدد کے لئے جہاز بھیجے اور انہوں نے بھارتی ٹینکوں کو توڑ پھوڑ دیا تھا،اس کے بعد تو ہم نے کوریج کا سلسلہ شروع کیا،سرحد کی طرف جانے کی اجازت نہیں تھی، شہر کی خبریں بناتے اور رات کو گھر آ کر سول ڈیفنس کی وردی پہن کر پہرہ داری کرتے،امین الحسنات،سید خلیل احمد قادری ہمارے کمانڈر تھے، جذبے دیدنی تھے۔

یوم دفاع و شہدا پاکستان، مزار قائد پر گارڈز تبدیل

سترہ روز جنگ کے بعد سیز فائر کے دوران ہم نہ صرف سرحدی علاقوں میں جاتے، بلکہ مختلف علاقوں میں جا کر جنگ کے حالات پر مبنی خبریں بھی تلاش کرتے تھے۔ایک روز میں اور جی این بٹ (مرحوم، نوائے وقت) برکی کی طرف گئے اور ہمیں دور کے ایک گاؤں کی کہانی مل گئی اس میں ایک مسجد کا بمباری سے بچے رہنے کا بھی ذکر تھا،جا کر تصویر نہ بن سکتی تھی، ہم جب واپس آ رہے تھے تو تاج پورہ، کینٹ کراسنگ پر چھوٹی مسجد نظر آئی،ہم نے سوچا کہ اس مسجد کی تصویریں بنا لتے ہیں اور خبر کے ساتھ شامل کر دیں گے،ابھی ہم تصویریں بنا رہے تھے کہ چار فوجی جوانوں نے ہمیں باقاعدہ حراست میں لے لیا، ہمارے واویلا اور تعارفی کارڈ دکھانے کے باوجود وہ ہمیں ایک ٹرک میں بٹھا کر قذافی سٹیڈیم لے آئے اور وہاں ایک کمرے میں کرسیوں پر بٹھا دیا،یہ سب سیٹ اَپ ریٹائرڈ فوجیوں کا تھا اور ہمارے بیٹھے بیٹھے کئی حضرات آتے اور کہتے لو! جی! اب پکڑے گئے بھارتی جاسوس اور ہماری جان نکل جاتی،قریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد کمانڈر صاحب تشریف لائے اور ہمیں عزت سے اپنے دفتر میں لے گئے۔ہمارے کارڈ واپس کئے اور چائے سے تواضع کی اور کہا کہ آپ لوگوں کو جو تکلیف ہوئی وہ ہمارے فرائض کی ادائیگی کے باعث تھی، اب آپ کے دفاتر سے تصدیق ہو گئی ہے اور ہم آپ دونوں کے دفاتر تک چھوڑ دیں گے،اور انہوں نے ایسا ہی کیا،ظاہر ہے کہ ہم بار بار شکریہ ادا کرتے ہوئے، جان بچی سو لاکھوں پائے کا ورد کرتے آئے۔

امریکی خاتون اول کورونا کا شکار ہوگئیں


سترہ روزہ جنگ اور اس سے منسلک واقعات تو اتنے ہیں کہ کتابیں بھی لکھی جا سکتی ہیں،صرف ایک اور واقعہ لکھ کر اجازت چاہوں گا، میں اور یعقوب بھٹی فوٹو گرافر (مرحوم) معمول کے مطابق 3۔بلوچ کے دوستوں کے ساتھ بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے کہ ایک چھوٹا طیارہ اوپر سے گذرا،اس پر بھارتی افواج کی طرف سے فائرنگ کی گئی اور وہ بچ نکلا۔میں نے میجر نواز سے پوچھا کہ یہ طیارہ ہمارا تھا،انہوں نے کہا ہاں۔یہ معمول کی پرواز تھی، پھر پوچھا کہ اب کہاں گیا تو انہوں نے بتا دیا کہ والٹن ایئر پورٹ پر اترا ہو گا۔ہم خبر کی تلاش اور پائلٹ کے انٹرویو کے لئے بھٹی کی کوئیکلی پر برکی کی طرف سے جا کر ایئر پورٹ میں گھس گئے تو یہاں دھر لئے گئے۔پیشی کمانڈر کے سامنے جو باہر دھوپ میں چائے پی رہے تھے، ہم سے معمول کے سوال، ہمارے شناختی کارڈ دیکھے گئے۔ پھر کمانڈر صاحب نے ہمارے ایڈیٹر ظہیر بابر سے بات کی وہ ان کو جانتے تھے۔محترم ظہیر بابر نے تصدیق کر دی اور پھر مجھ سے بات کی،ان کے پہلے لفظ تھے ”اوئے توں ایتھے کتھے جا نکلیاں ایں“ جواب میں خبر کی تلاش کا ذکر اور پھر ہماری خاطر تواضع کے بعد دفتر واپسی ہو گئی،آج اتنا ہی سہی۔بہرحال یاد رکھئے1965ء کو دفاع ممکن ہوا، لیکن فوج اور عوام یکجان اور جذبہ ایمانی ساتھ تھا۔

پی آئی اے ملازمین نے 26 روز سے جاری احتجاج ختم کردیا

QOSHE - 6ستمبر: چند یادیں! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

6ستمبر: چند یادیں!

9 0
06.09.2023


آج چھ ستمبر ہے، اٹھاون برس پہلے بھارتی فوج نے پوری قوت کے ساتھ گذری نصف شب کے بعد کسی پیشگی وارننگ کے بغیر واہگہ کی بین الاقوامی سرحد عبور کر لی تھی کہ اسے چھمب جوڑیاں (کشمیر) سے ہاتھ دھونا پڑے کہ کئی روز سے جاری کنٹرول لائن پر جھڑپوں سے بھاتی فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ مبصرین کا خیال تھا کہ اگر یہ لڑائی چند روز جاری رہی تو بھارت کو کشمیر سے نکلنا پڑے گا تاہم بھارت نے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے وہ جنگ چھیڑ دی جو سترہ روز جاری رہی اور اس میں بھارتی افواج کو شدید نقصان اٹھانا پڑا،حملہ آور ہونے کی وجہ سے بھارت والوں کو اتنا فائدہ ہو گیا کہ ان کی فوجیں واہگہ عبور کر کے جلو تک اور ہڈیارہ نہر عبور کر کے برکی تک آ گئیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بھارتی افواج کے سربراہ کی طرف سے یہ بڑھک بھی ماری گئی کہ وہ لاہور جمخانہ کلب(باغ جناح) میں آ کر شراب پئیں گے اور پہلے روز ان کی طرف سے لاہور پر قبضے کا دعویٰ بھی کر دیا گیا،اس کے ثبوت میں لاہور اومنی بس سروس کی بسیں امرتسر کے بازاروں میں گھمائی گئیں، تب مقامی سفر کے لئے لاہور اومنی بس کے نام سے بسیں چلتی تھیں، اور ایک روٹ ریلوے سٹیشن سے واہگہ بارڈر تک تھا،رات کو جب بس سروس کا اختتام ہوتا تو چند بسیں واہگہ ٹرمینل پر بھی کھڑی رہتی تھیں کہ صبح کو باقاعدہ سروس شروع کی جا سکے، بھارتی افواج نے جب یہ بین الاقوامی سرحد عبور کی تو ٹینکوں کے ساتھ پیدل افواج پیچھے تھیں، ہماری طرف صرف معمول کے رینجرز تھے یقین یہ تھا کہ بین الاقوامی سرحد پر بلا چیلنج یا انتباہ حملہ ممکن نہیں، لیکن بھارت نے تب سے آج تک کسی قانون قاعدے اور آداب کا خیال نہیں رکھا، رینجرز نے جان لڑائی اور شہادت کا درجہ پا کر پیش قدمی میں رکاوٹ پیدا کی تاہم ٹینکوں اور بھرپور حملے کے جواب میں وہ روک تو نہ سکے البتہ اطلاع ضرور ہو گئی۔

حریم شاہ خود ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں چلاتی لیکن کوئی ان کی مرضی سےچلا رہا ہے: بلال شاہ نے سب کچھ بتادیا


ان دنوں سائیفن سے جلو موڑ پل تک کا علاقہ فرنٹیئر فورس، سڑک کے پل سے ر یلوے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play