ایک دن چند دوست مجھے اس مقام پر لے گئے جہاں سے دریائے راوی اور بی آر بی ایک دوسرے کو کراس کرتے ہیں۔حقیقت میں یہ منظر بہت دلکش تھا لیکن وہاں مجھے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ کی ایک یاد گار بھی دکھائی دی۔جس پر یہ الفاظ تحریر تھے کہ یہاں صحیح سلامت گھر جانے والوں اپنے بیوی بچوں میں جا کر پاک فوج کے ان افسروں اور جوانوں کو ضرور یاد کرنا جنہوں نے تمہارے تحفظ کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ اس لمحے مجھے 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے حقیقی ہیرو لانس نائیک محمد محفوظ شہید (نشان حیدر) کی یاد آئی جو مشکل ترین حالات اور شدید ترین گولہ باری کے دروان بھی اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے دشمن کے اس مورچے تک جا پہنچے جہاں پاکستانی فوج پر مسلسل گولہ باری ہورہی تھی۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے پہلے یقینا لانس نائیک محفوظ شہید کو بھی اپنے بیوی، بچوں اور محبت کرنے والوں کی یاد تو آئی ہو گی لیکن پاک فوج کے اس عظیم سرفروش نے اپنی جان قربان کرکے وطن عزیز پر آنچ نہیں آنے دی اور دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیئے۔جنگ بندی کے بعد بھارتی فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سریش پوری نے لانس نائیک محمد محفوظ کی نعش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے کمانڈر کو کہا اس جوان نے جس بہادری کا مظاہر ہ کیا ہے اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔بھارتی کمانڈر نے یہ بھی کہا کہ یہ شہید کسی بڑے فوجی اعزاز کا حقدار ہے۔ وہیں کھڑے ہوئے مجھے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں میجر شفقت بلوچ کی بہادری اور دلیری کی یاد بھی آئی جنہوں نے اپنی بیوی بچوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ہڈیارہ ڈرین کے بلند کنارے پر کھڑے ہوکر صرف دو سو گز کے فاصلے پر لاہور کی جانب بڑھتے ہوئے بھارتی ٹینکوں پر ٹھیک........