بنگلہ دیش میں دس روز         (قسط2)

تیس دن ستمبر کے

اپریل جون نومبر کے

فروری کے اٹھائیس

باقی سب کے ایک ا ور تیس

بچوں کی اس نظم کے مطابق تو جولائی کے اکتیس دن ہونا چاہئیں لیکن بنگال میں پارسال کچھ ایسا ہوا کہ دن گزرتے گئے، تاریخ بھی بدلتی رہی لیکن جولائی کے مہینے نے اگست میں منتقل ہونے سے انکار کر دیا۔ پانچ سات روز اسی کشمکش میں گزر گئے۔ آخر چھتیس جولائی کو ایک نیا سورج طلوع ہوا، تقویم بحال ہوئی اور ہم پر اقبال کے شعر کی ایک نئی معنویت آشکار ہوئی:

عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا

چاغی میں آئل ٹینکر اور مسافر گاڑی کے درمیان تصادم، 10 افراد جاں بحق

اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

واقعہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے طلبہ و طالبات نے ایک نئی تقویم مرتب کی ہے۔ ان لاکھوں میں سے ایک اسلامک یونی ورسٹی کا طالب علم مخلص الرحمن سویٹ بھی تھا۔ ایک چٹاگانگ یونی ورسٹی کا بلال حسین تھا اور نفسین مہناز نام کی ایک طالبہ بھی تھی جو نارتھ ساؤتھ یونی ورسٹی، ڈھاکا میں زیرِ تعلیم تھی۔ بنگلہ دیش میں قیام کے دوران ہماری ان تینوں سے ملاقات رہی۔ نفسین کی صورت پر یوں تو سادگی برستی تھی لیکن جب ہم نے ایک ویڈیو میں اس کی شعلہ بیانی دیکھی تو ہمارے لہو میں بھی حرارت پیدا ہو گئی۔ ہم ایسے جذباتی انسان ہیں کہ اگر ہمارے اپنے خلاف بھی نعرے لگائے جارہے ہوں تو ہمارا خون جوش مارنے لگتا ہے اور مخالفین سے زیادہ اونچی آواز میں نعرہ زن ہو جاتے ہیں۔ ویڈیو میں وہ ایک جلوس کی قیادت کر رہی تھی اور ہاتھ لہرا لہرا کر پرجوش نعرے لگا رہی تھی۔ نعرے بنگلہ زبان میں تھے۔ ہم نے معنی دریافت کیے تو معلوم ہوا کہ نفسین پکار پکار کر........

© Daily Pakistan (Urdu)