قلم ہاتھ میں پکڑتے ہی میری یادوں کے کواڑ آہستہ آہستہ کھلنے لگتے ہیں اور میں اُس مکتب میں آپہنچی ہوں جہاں چاروں طرف اَدب اور فلسفے کا ڈیرا تھا۔ ایک دانا درویش اُس ڈیرے کی روح تھا اور ہم سب اُس کا ہالہ۔ میرے لیے اُن کا کچھ کہنا حرفِ آخر تھا جن کی نظرعقابی، جن کے لفظ خوشبو تھے، جن کی گفتار اور کردار میں ہمیشہ مماثلت دیکھی۔ اُن کی پیاربھری نظروں کے حصار میں رہنا ہماری خوش قسمتی تھی اُن کی تربیت ہمارا نصیب تھا۔ یہ درویش شاعر ادیب و مفکر اور اُستاد صوفی غلام مصطفی تبسم ہمیں ہمارے دادا کی صورت ملے تھے۔

نواز شریف کی این اے 130 سے سیٹ غیر محفوظ ہے, صحافی منصور علی خان کا دعویٰ

میری چھوٹی سی عمر میں اُنہوں نے ہماری عقل و فہم کے لیے کئی دریچے وا کیے تے۔ وہ ہماری تربیت میں لگے رہتے۔ مہمانوں کو سلام کیسے کرنا ہے، اُن کے پاس تمیز سے کیسے بیٹھنا ہے، مہمانوں کا عزت و احترام کیسے کیا جاتا ہے، محبتوں کو کیسے پالا جاتا ہے، گھر کا سلیقہ کیا ہوتا ہے۔ گھر کا سکون اور خامشی کیا معنی رکھتی ہے۔ سبز چائے کیسے بنائی جاتی ہے اور حُقہ تازہ کیسے ہوتا ہے۔

اُنہوں نے ہمیں بتایا کتاب کی کیا اہمیت ہے، اُسے ہاتھ میں کس سلیقے سے پکڑا جاتا ہے، اُس کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے اور پڑھ کر کہاں اور کیسے رکھا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ کتاب سے لے کر گھرداری کی ہر چیز کس طرح سلیقہ مندی سے اپنی اپنی جگہ رکھی جاتی ہے۔

برطانوی بادشاہ چارلس سوئم موڈی مرض میں مبتلا ہوگئے

اُنہوں نے بتایا اچھا انسان وہ ہے جس کے اخلاق و اطوار اچھے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے عمل سے بتایا بناوٹ کی کوئی اہمیت نہیں، دھن دولت کچھ بھی نہیں۔ دنیا میں دولت ہے تو صرف علم کی دولت ہے جسے حاصل کرنے کے بعد اپنی روح میں اُتارنا ہے ورنہ یہ زہر بن جاتا ہے۔

اس تربیت کے ساتھ ساتھ میری نظر اُن پر مرکوز رہتی اُن کے لکھے فقروں اور جملوں پر غور کرتی، اُن کی شاعری کو سمجھنے کی کوشش کرتی۔ آہستہ آہستہ میرے شعور کی گرہیں کھلنے لگیں اور میں جس نے اُن کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے ہنسنا سیکھا، ہاتھ پکڑ کر چلنا سیکھا اُن کی صحبتوں میں علم کو جذب کرنا سیکھا۔ اب وہ یہ سب دیکھ کر خوش ہونے لگے اور پھر وہ 7 فروری 1978 کو چپ چاپ ہمیشہ کے لیے ایک لمبے سفر پر روانہ ہوگئے……

جماعت اسلامی نے الیکشن کے حوالے سے نیا ترانہ جاری کر دیا

کیوں چھین کے گلشن سے قضا لے گئی تجھ کو

تو موجہئ گل تھا کہ صبا لے گئی تجھ کو

سوچ میں ڈوبی میری عقل، کانپتی روح اور آنسوؤں سے تر پلکوں سے چند اشعار اُبھرے اور گم ہوگئے ایک سرگوشی ہوئی اور ہوا کہ لہروں میں کہیں کھوگئی پھر ایک دِن دِل مضطر نے ہاتھ میں قلم اُٹھایا اور کچھ لکھ ڈالا اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلا کہ آج تک قائم ہے۔

اُن کا عمل اُن کے افکار اُن کی کتابیں اُن کے اشعار ہمارے ورثے کے روپ میں آج بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ صوفی صاحب 4اگست 1899 کو پیدا ہوئے۔ صوفی صاحب نے جس شہر میں آنکھ کھولی وہ امرتسر کہلاتا تھا جس کا پانی میٹھا تھا اور اُس کی شیرینی صوفی صاحب کی باتوں میں موجود تھی۔ یہ شہر ایسا تھا جہاں بڑے بڑے شہرت یافتہ شاعر، ادیب، علماء، فضلاء اور مشائخ بستے تھے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

صوفی تبسم نے ابتدائی تعلیم چرچ مشن سکول امرتسر سے حاصل کی۔ ایف اے خالصہ کالج امرتسر سے کیا اور پھر ایف سی کالج لاہور سے بی اے کیا۔ اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے فارسی کی سند حاصل کی اور سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ٹی کا امتحان پاس کیا۔ اُنہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا مگر کچھ عرصہ بعد ہی انسپکٹر آف سکولز ہوگئے۔ بعدازاں سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں اُردو، فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور چار سال بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں صدر شعبہئ فارسی اور صدر شعبہئ اُردو رہے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

''بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی ہماری سرزمین پر پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنانے تک پھیل چکی ہے،، آرمی چیف کا بیان

صوفی تبسم نے 1931 سے 1954 تک کازمانہ تدریسی فرائض انجام دینے میں گزارا۔ اُنہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور کے لیے بے انتہا خدمات سرانجام دیں۔ اُنہوں نے ڈرامیٹک سوسائٹی کا اِجراء کیا۔ شیکسپیئر کے کئی ڈراموں کا ترجمہ کیا اور پھر سٹیج بھی کروائے۔

برصغیر کے نامور شعراء کے نام اور کلام کو نئی نسل سے روشناس کرنے کے لیے ”دِلّی کی آخری شمع“ کے عنوان سے یادگار ڈرامہ کیا جس میں اِن شعراء کو پوٹرے بھی کیا گیا تھا بلاشبہ گورنمنٹ کالج لاہور کا یہ علمی و ادبی زمانہ اپنے عروج کا زمانہ تھا۔ یہ دور D۔جی سوندھی کا تھا جو پطرس بخاری صاحب سے پہلے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل رہے۔ اپنے طویل دورِ معلمی میں صوفی صاحب اپنے شاگردوں میں بے حد مقبول رہے۔ اُن کے شاگردوں میں ایسے نام بھی ہیں جنہوں نے اپنے اُستاد کی طرح بے پناہ شہرت حاصل کی۔ ان میں سعادت حسن منٹو، قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر، تجمل حسین، اشفاق احمد، بانوقدسیہ، کشور ناہید، فیض احمد فیض، اعجاز حسین بٹالوی، جسٹس نسیم حسن شاہ، شہزاد احمد، حنیف رامے، ڈاکٹر عبدالسلام، پروفیسر مشکور حسین یاد اور بھارت کے سابق سیکرٹری آنجہانی ڈی پی دھر کے علاوہ بے شمار معروف لوگ شامل ہیں۔ (جاری ہے)

ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان کراچی کی ایک اور نشست پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ

QOSHE -         صوفی تبسم ایک ہمہ گیر شخصیت         (1) - ڈاکٹر فوزیہ تبسم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        صوفی تبسم ایک ہمہ گیر شخصیت         (1)

14 0
06.02.2024

قلم ہاتھ میں پکڑتے ہی میری یادوں کے کواڑ آہستہ آہستہ کھلنے لگتے ہیں اور میں اُس مکتب میں آپہنچی ہوں جہاں چاروں طرف اَدب اور فلسفے کا ڈیرا تھا۔ ایک دانا درویش اُس ڈیرے کی روح تھا اور ہم سب اُس کا ہالہ۔ میرے لیے اُن کا کچھ کہنا حرفِ آخر تھا جن کی نظرعقابی، جن کے لفظ خوشبو تھے، جن کی گفتار اور کردار میں ہمیشہ مماثلت دیکھی۔ اُن کی پیاربھری نظروں کے حصار میں رہنا ہماری خوش قسمتی تھی اُن کی تربیت ہمارا نصیب تھا۔ یہ درویش شاعر ادیب و مفکر اور اُستاد صوفی غلام مصطفی تبسم ہمیں ہمارے دادا کی صورت ملے تھے۔

نواز شریف کی این اے 130 سے سیٹ غیر محفوظ ہے, صحافی منصور علی خان کا دعویٰ

میری چھوٹی سی عمر میں اُنہوں نے ہماری عقل و فہم کے لیے کئی دریچے وا کیے تے۔ وہ ہماری تربیت میں لگے رہتے۔ مہمانوں کو سلام کیسے کرنا ہے، اُن کے پاس تمیز سے کیسے بیٹھنا ہے، مہمانوں کا عزت و احترام کیسے کیا جاتا ہے، محبتوں کو کیسے پالا جاتا ہے، گھر کا سلیقہ کیا ہوتا ہے۔ گھر کا سکون اور خامشی کیا معنی رکھتی ہے۔ سبز چائے کیسے بنائی جاتی ہے اور حُقہ تازہ کیسے ہوتا ہے۔

اُنہوں نے ہمیں بتایا کتاب کی کیا اہمیت ہے، اُسے ہاتھ میں کس سلیقے سے پکڑا جاتا ہے، اُس کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے اور پڑھ کر کہاں اور کیسے رکھا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ کتاب سے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play