کسان ہے پریشان
پنجابی کی ایک نظم کے دوبند:
چیت چڑھیا تے تینوں اسی تکیا
ساڈا جگ سی ویران اَج وسیا
کہ نینی خواب ہرے بھرے
وا ڈالیاں دی مینڈی پئی کھولدی
رنگاں دی جنج چڑھے چڑھے
چیت چڑھیا تے تینوں اسی تکیا
یہ گیت جوانی اور اس کے رنگوں، اس کی ترنگوں کا عکاس ہے۔ ویسے ہی رنگ فصل کاٹنے اور پیداوار ٹھکانے لگانے پر کسان کے چہرے پر بھی روشن نظر آتے ہیں۔ چیت کے مہینے میں فصل کے پروان چڑھنے پر جو مسرت کسان کے دل میں موجزن ہوتی ہے بیساکھ میں وہ متشکل ہو کرسامنے آ جاتی ہے، اس مہینے میں کسان گندم کی فصل کاٹ کر فارغ ہوتا ہے تو اپنی چارچھ ماہ کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے موج میلوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ بیساکھی کا میلہ ایسا ہی ایک تہوار ہے۔ماضی میں بیساکھی کا میلہ کسی خاص مذہب سے منسوب نہیں تھا۔بڑے بوڑھوں کے مطابق آزادی سے پہلے پنجاب کے تمام کسان ہر طرح کی تفریق سے بالاتر ہو کر ربیع کی فصلوں کی کٹائی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے تھے اور میلے منعقد ہوتے تھے۔
وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کا اشارہ دے دیافصلاں دی مک گئی راکھی
جٹا آئی وساکھی، آئی وساکھی
چیت کا مہینہ ابھی ابھی ختم ہوا ہے اور بیساکھ کے رنگ فضا میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ رنگ پھیکے ہیں۔ کسان کے چہرے پر وہ رونق اور وہ چمک دمک نظر نہیں آتی جو گندم کی پکی ہوئی فصل دیکھ کر آتی ہے اور وجہ یہ ہے کہ اسے اس بات کا یقین نہیں کہ جب وہ فصل کاٹ لے گا اور گندم سے بھری........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website