آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوتے ہی سٹاک مارکیٹ اوپر گئی اور روپیہ بھی قدرے مضبوط ہوا اس پر اطمینان کا اظہار کیا گیا لیکن اس امر کو نظر انداز کیا گیا کہ یہاں قومی مفاد کتنا عزیز ہے اور مافیا ازم کتنا طاقتور ہے۔ وزیر خزانہ نے تو ایک بار پھر کہہ دیا تھاکہ ڈالر کی شرح تبادلہ 250 روپے تک آ جائے گی۔ لیکن یہ خواہش ہی رہی کہ روپے کی قدر دو تین دن بہتر رہی لیکن اس کے بعد بتدریج پھر ڈالر تگڑا ہونے لگ گیا۔ ہم سب نے یہ نظر انداز کر دیا تھا کہ معاہدے کی شرائط میں ایک شرط درآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنے سے بھی متعلق ہے اور درآمدات کے لئے زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ ابھی تو ایل سی کھولنے کی رفتار کم ہے تو ڈالر کی قدر پھر سے بڑھ گئی ہے۔ جب معاہدے کے مطابق درآمدات کی عام اجازت ہو گی تو جہاں صنعتی اور تجارتی ضروریات کے لئے اشیاء اور مشینری کی درآمد لازم ہو گی وہاں ہمارے ”محب وطن“ عناصر ایسی چیزیں بھی درآمد کریں گے جو ان کے لئے ”ضروری ہوں گی“ اس صورت میں بھی زر مبادلہ ہی خرچ ہوگا اور یوں ڈالر کی مانگ بڑھ جائے گی اور ایسا ہوا تو شرح تبادلہ بھی ڈالر ہی کے حق میں ہو گی ہمارے لئے صرف محض تسلیاں رہ جائیں گی۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی چینی ناظم الامور سے ملاقات، سی پیک پر کام تیزی سے شروع کرنے پر اتفاق

میں کسی ایک فریق کو مورد الزام ٹھہرانے کے حق میں نہیں ہوں کہ جب تک ہر پاکستانی فرد ملکی مفاد کا احساس نہیں کرے گا۔ تب تک یہ صورت حال برقرار رہے گی کہ ہمارا ”قومی کلچر“ بھی کچھ ایسا بن چکا ہوا ہے۔ اس کی تحقیق کے لئے جے آئی ٹی کی ضرورت نہیں۔ یہ تو ہر روز ہوتا ہے تماشہ میرے آگے والی بات ہے۔ یہاں دستور تو یہ ہے کہ جب کسی شے کے نرخ بڑھ جائیں تو پھر واپس نہیں آتے اور نہ ہی ہمارے یہاں عمل درآمد کرانے والے اب فکر یا پرواہ کرتے ہیں۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی کے نرخ بڑھے تو ہر بار پبلک ٹرانسپورٹ گڈز فارورڈنگ اور ویگنوں کے کرائے معہ رکشا کے بڑھا دیئے گئے۔ اب دو بار پٹرولیم کے نرخ کم ہوئے ایل پی جی ساڑھے تین سو روپے کلو سے کم ہو کر 174 فی کلو ہو چکی (یہ سرکاری قیمت ہے بازار میں دو سو روپے فی کلو ہے) یوں انرجی سستی ہونے کے باوجود بسوں، ویگنوں اور رکشاؤں کے کرایوں میں ایک فیصد بھی کمی نہیں ہوئی اور مہنگائی کے نام پر جو کرائے بڑھائے گئے تھے وہ جوں کے توں ہیں،بلکہ اس سے بھی زیادہ چارج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ قرطبہ چوک سے دفتر (روزنامہ پاکستان 41 جیل روڈ) کے لئے رکشا لیا دفتر پہنچ کر رکشا والا کو سو کا نوٹ دیا کہ وہ اپنا کرایہ لے لے موصوف سو روپے لے کر چل دیئے اور روکنے پر کہنے لگے مہنگائی بہت ہے۔

جی ڈی اے کے غوث بخش مہر نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا

یہ سب صورت حال اس لئے ہے کہ تا حال مہنگائی کے حوالے سے کوئی کارروائی نہیں ہو رہی منافع خور اپنی لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس لوٹ مار کی وجہ مہنگائی بتائی جاتی ہے اب بھی کہا جاتا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہے جبکہ ایل پی جی بھی گراں ہے۔ کسی سرکاری محکمے نے اب تک اس کا نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے بھی کوئی عمل نظر نہیں آتا۔ تنقید کرنے والے اپنا کام کئے جا رہے ہیں اور اقتدار والے اپنی طرف سے تسلیاں دیئے جا رہے ہیں۔ بازار میں مہنگائی روکنے والا ہی کوئی نہیں ہے اور لوگ من مانی کر رہے ہیں اور اس کے بعد مہنگائی کا نام لے کر برسر اقتدار حضرات کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

یوکرینی وزیر خارجہ بھی پاکستانی کھانوں کے دیوانے، پسندیدہ ڈش کے بارے میں بتادیا

وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اگست میں قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے پر اقتدار چھوڑنے اور انتخابات کے لئے آمادگی کا اظہار کر دیا یوں یہ صورت حال بنی تو محکمہ والوں نے مزید آنکھیں بند کر لی ہیں اور یوں ہوا ”اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے“ اور اس طرح عوام کو صرف اللہ ہی کا بھروسہ ہے اور بقول ہمارے وزیر اعظم من و سلویٰ تو اترے گا نہیں۔ لہٰذا یہ عوام اسی طرح دھکے کھاتے رہیں گے اور ہر فرد ان کو لوٹتا رہے گا۔ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے بار بر کہا کہ اب اشرافیہ کو بھی قربانی دینا ہو گی۔ ایسا نہ کبھی پہلے ہوا اور نہ اب ہوگا کہ جتنے بھی ٹیکس لگائے گئے وہ سب عوام پر منتقل کر دیئے گئے ہیں اس پر گیس اور بجلی کے نرخ مزید بڑھائے گئے اور بڑھائے جا رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ ہفتے میرا صاحبزادہ اور گھر والے گروسری کے لئے گئے تو مجموعی طور پر 48 ہزار روپے کی آئی جبکہ محلے دار پرچون والے کے 26 ہزار روپے الگ بن چکے تھے۔ یہ سب سبزی، فروٹ اور تن کی ضرورت کے علاوہ ہے ہمارا سارا گھرانہ ملازمت کرتا ہے تو گزارہ ہوتا ہے اس لئے سوچتے ہیں کہ جو لوگ اس دور میں پندرہ، بیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ لیتے ہیں ان کی گزر اوقات کیسے ہوتی ہو گی کہ یہاں تو بجلی، گیس اور نلکے کے بل دیتے ہوئے بھی چیخیں نکلتی ہیں۔

میاں نواز شریف کے نام پر کاٹا کبھی نہیں لگا،میری رائے میں وہی وزیراعظم ہوں گے،خواجہ آصف

میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت جو حالات ہیں وہ انتظامی لحاظ سے بالکل صفر ہیں اگر کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور دوسرے افسر بہتر ہیں تو کچھ کام ہو جاتا ہے لیکن عمومی طور پر شہروں کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے اور بیانات کے ذریعے سب کام ہوتے رہتے ہیں۔

میں نے ابتدا میں عرض کی کہ ڈالر نیچے آتے آتے پھر سے اونچا ہو گیا ہے اور مافیا اسے نیچے نہیں آنے دے گا۔ معاہدہ کے اثرات کے باعث تو روپے کی قدر بہتر ہوئی تاہم معاہدے کی تفصیلات (بذریہ آئی ایم ایف) سامنے آئیں تو مافیا پھر سے متحرک ہو گیا اور اب پھر سے زرمبادلہ والی کرنسی کا جوا شروع ہو گیا ہے جب تک مافیاؤں کو نہیں توڑا جائے گا کچھ نہیں بنے گا کہ یہاں تو چینی کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ اگر چینی کے نرخوں میں دس روپے فی کلو اضافہ ہو تو مالکان شوگر ملزم کا منافع کتنا بڑھے گا لیکن یہاں تو چینی 110 روپے کی کلو سے 150 روپے فی کلو تک پہنچا دی گئی اور درجہ بدرجہ اس میں ناجائز منافع کمایا جا رہا ہے یہ ایسی چیز ہے جس پر کنٹرول مشکل نہیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا کیونکہ ہم خود ہی مالک اور خود ہی ڈیلر ہیں عوام کا تو اللہ حافظ ہے ہی۔

پرویز خٹک کا تحریک انصاف چھوڑنا عمران خان کے لیے پہلا بڑا جھٹکا ہے، سہیل وڑائچ کا تجزیہ

QOSHE - کچھ اس کا بھی علاج ہے؟؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کچھ اس کا بھی علاج ہے؟؟

10 4
21.07.2023

آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوتے ہی سٹاک مارکیٹ اوپر گئی اور روپیہ بھی قدرے مضبوط ہوا اس پر اطمینان کا اظہار کیا گیا لیکن اس امر کو نظر انداز کیا گیا کہ یہاں قومی مفاد کتنا عزیز ہے اور مافیا ازم کتنا طاقتور ہے۔ وزیر خزانہ نے تو ایک بار پھر کہہ دیا تھاکہ ڈالر کی شرح تبادلہ 250 روپے تک آ جائے گی۔ لیکن یہ خواہش ہی رہی کہ روپے کی قدر دو تین دن بہتر رہی لیکن اس کے بعد بتدریج پھر ڈالر تگڑا ہونے لگ گیا۔ ہم سب نے یہ نظر انداز کر دیا تھا کہ معاہدے کی شرائط میں ایک شرط درآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنے سے بھی متعلق ہے اور درآمدات کے لئے زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ ابھی تو ایل سی کھولنے کی رفتار کم ہے تو ڈالر کی قدر پھر سے بڑھ گئی ہے۔ جب معاہدے کے مطابق درآمدات کی عام اجازت ہو گی تو جہاں صنعتی اور تجارتی ضروریات کے لئے اشیاء اور مشینری کی درآمد لازم ہو گی وہاں ہمارے ”محب وطن“ عناصر ایسی چیزیں بھی درآمد کریں گے جو ان کے لئے ”ضروری ہوں گی“ اس صورت میں بھی زر مبادلہ ہی خرچ ہوگا اور یوں ڈالر کی مانگ بڑھ جائے گی اور ایسا ہوا تو شرح تبادلہ بھی ڈالر ہی کے حق میں ہو گی ہمارے لئے صرف محض تسلیاں رہ جائیں گی۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی چینی ناظم الامور سے ملاقات، سی پیک پر کام تیزی سے شروع کرنے پر اتفاق

میں کسی ایک فریق کو مورد الزام ٹھہرانے کے حق میں نہیں ہوں کہ جب تک ہر پاکستانی فرد ملکی مفاد کا احساس نہیں کرے گا۔ تب تک یہ صورت حال برقرار رہے گی کہ ہمارا ”قومی کلچر“ بھی کچھ ایسا بن چکا ہوا ہے۔ اس........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play