سوشل میڈیا پر ایک بار پھر آزادی صحافت کے حوالے سے بات ہو رہی ہے اور بعض دوستوں نے حکومت کی طرف سے بجٹ میں صحافیوں کی انشورنس اور بہبود کے لئے رقم مختص کرنے پر پوسٹ لگائی ہیں اور وزیر اطلاعات کے اسلام آباد پریس کلب جانے پر پر جوش استقبال پر اعتراض کیا ہے۔ ایک برخوردار نے تو پرانی باتوں کا ذکر کر کے پی ایف یو جے کے راہنماؤں کا بھی ذکر کیا اور اسی پوسٹ یا وی لاگ میں ایک دوست نما دشمن کا بھی ذکر کر دیا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں جو وفات پا گئے وہ اللہ کو جواب دہ ہیں، تاہم اگر پی ایف یو جے اور اس کے حقیقی راہنماؤں منہاج برنا، نثار عثمانی، آئی ایچ راشد افضل خان اور عبدالحمید چھاپرہ میں سے کسی کا نام آئے گا تو مجھے اپنے سارے ساتھی بھی یاد آتے چلے جائیں گے، احفاظ ا لرحمن کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں کہ مرحوم نے سب سے بڑی جنگ کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب مرتب کر دی جو آزادی صحافت کی طویل جدوجہد پر مشتمل ہے اس کتاب میں زیادہ سے زیادہ اور ٹھوس معلومات جمع کر دی گئی ہیں اس کے باوجود بہت سی باتیں رہ گئی ہیں اس میں مصنف کا نہیں ہم جیسوں کا قصور ہے جو لاہور سے متعلق مکمل معلومات نہ پہنچا سکے۔ بہر حال اس وقت تو ذکر موجودہ حالات کا ہے جس برخوردار نے تلخ الفاظ میں تنقید کی اس کے لئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا ”اس وقت نہ تو حقیقی پی ایف یو جے ہے اور نہ ہی قیادت، یہ تنظیم برنا ہی کے نام سے کئی حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اس لئے کچھ کہنا مناسب نہیں ضیاء الدین (مرحوم) جب زندہ تھے تو میں نے بھی بھرپور کوشش کی لیکن اتحاد نہ ہو پایا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ایک دو تنظیمیں پی ایف یو جے کے نام سے اپنے پروں پر اڑنے کی کوشش کرتی ہیں اور دو تنظیموں کو اجارہ داروں کی سرپرستی حاصل ہے اور یہ سب اس لئے ہوا کہ ٹریڈ یونین سے ذاتی مفادات وابستہ ہو گئے اور منفعت کا عنصر شامل ہو گیا جبکہ حقیقی دور اور اصلی تنظیم میں ایسا کچھ نہیں تھا ہمارے راہنما مخلص تھے۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ حکمت عملی کی بعض غلطیاں ہی موجودہ انتشار کا سبب ہیں اور آج مضبوط ترین فیڈریشن کئی حصوں میں تقسیم ہو کر وہ وقار گنوا بیٹھی ہے جو اس کا شیوہ مردانگی تھا اب برخوردار کی یہ بات درست ہے کہ حکومت کی طرف سے رعایت کے بعد وزیر اطلاعات کو مدعو کیا جاتا اور جب وہ تشریف لاتی ہیں تو ان پر اس طرح پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں جیسے قاسم کے ابو اور مریم نواز شریف کی گاڑیوں پر احتراماً پھینکی جاتی تھیں اور ہیں اس میں اسلام آباد پریس کلب اور پی ایف یو جے کے عہدیدار بھی شامل ہیں اور کئی ایسے سینئر صحافی بھی موجود تھے جن کا پی ایف یو جے کی آزادی صحافت والی تحریکوں سے تو کوئی تعلق نہیں رہا۔ اگرچہ انہوں نے اپنے لئے خود جدوجہد کی اور مشہور ہوئے۔

کراچی مئیر شپ کے الیکشن کے خلاف جماعت اسلامی نے عدالت جانے کا اعلان کر دیا

میں اگرچہ سوشل میڈیا کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط ہوں حتیٰ کہ دوستوں کی پوسٹوں اور وی لاگ پر بھی تبصرے سے گریز کرتا ہوں تاہم آزادی صحافت کا اتنا ذکر ہوتا ہے کہ آج میں بعض تلخ باتیں تحریر کرنے پر مجبور ہوں، توقع کرتا ہوں کہ زندہ رہ جانے والے سینئرز اور جدوجہد والے جواں سال اس سے کچھ حاصل کریں گے اور ممکن ہوا تو اپنا حصہ بھی ڈالیں گے اس جدوجہد کی تاریخ تو طویل ہے اس میں بہت سے زعماء نے حصہ ڈالا اور پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو کچھ کئے بغیر آج چیمپئن بنے ہوئے ہیں کہ ان کو ان کی اپنی حکمت علمی سے ایسا مقام ملا جسے استعمال کر کے وہ اب معروف ہیں۔ میں بہت زیادہ تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے تاریخ کا اتنا حصہ عرض کر دیتا ہوں کہ میرے نزدیک جس کی وجہ سے آزادی صحافت آزاد ہو کر کر بھی آزاد نہ رہی میں نے جب 1963ء میں روز نامہ امروز سے پیشہ صحافت اختیار کیا تو ایک مبتدی تھا میرے والد مرحوم نے تحریک پاکستان میں بہت نمایاں حصہ لیا اور قیام پاکستان کے لئے سول نافرمانی کی تحریک کا میں بھی شاہد ہوں اور اپنے دو چار دوستوں کے ساتھ موچی دروازہ سے نکلنے والے جلوس کے ساتھ ریگل چوک تک بھی چلا جاتا تھا اس کے علاوہ زمانہ طالب علمی میں والد صاحب کی وجہ سے مسلم لیگ نیشنل گارڈ میں دلچسپی لی لیکن کسی طلباء تحریک کا کبھی حصہ نہ رہا اگرچہ پڑھنے لکھنے میں اللہ تعالیٰ نے بہتر توفیق دی تھی چنانچہ جب امروز میں آیا تو یہاں آکر ٹریڈ یونین کا بھی علم ہوا اور تب اپنے سینئرز عبداللہ ملک۔ اکمل علیمی، حمید اختر صاحبان کے ساتھ پی یو جے میں سرگرم ہو گیا۔ ان دنوں پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈی ننس کے خلاف احتجاج جاری تھا اور پی ایف یو جے اور پی یو جے میں کوئی تفریق نہ تھی۔ تاہم اس میں دو گروپ تھے جو دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کے حامل کہلاتے تھے (معافی چاہتا ہوں۔ کہلاتے تھے) اور ان کے درمیان زبردست مقابلہ ہوتا تھا۔ امروز جو پی پی ایل کا اردو اخبار تھا۔ اس میں اور پی پی ایل میں زیادہ تر حضرات بائیں والے تھے اس لئے میں بھی اسی گروہ کا حصہ بنا پی یو جے اور پی ایف یو جے کے علاوہ پی پی ایل ورکرز یونین بھی تھی اور تگڑی یونین تھی۔ اس کے صدور میں بڑے بڑے نام ہیں اے ٹی چودھری، صفدر میر، علی اختر مرزا اور آئی ایچ راشد بھی اس کے صدر رہے۔ ایک موقع پر برادرم ہمراز احسن کو بھی اعزاز حاصل ہو گیا۔ اس ادارے اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے دوسرے اخبارات کی وجہ سے ٹریڈ یونین زندہ اور فعال تھی کہ ٹرسٹ سرکاری سرپرستی میں تھا اور یہاں لیبر لاز لاگو تھے۔ کوئی کسی کو کان سے پکڑ کر نہیں نکال سکتا تھا انتقامی کارروائیاں ہوئیں لیکن ان کا مقابلہ کر لیا گیا۔

روسی پارلیمنٹ نے مجرموں کو یوکرین کےخلاف جنگ کےلیے بھرتی کرنے کی منظوری دے دی

میں یہاں صرف اس حکمت عملی کا ذکر کروں گا جس کی وجہ سے آزادی صحافت گم ہو کر رہ گئی ہے پی ایف یو جے آزاد صحافت کی علمبردار تھی اور مطالبات میں پریس اینڈ پبلیکیشنز ختم کرنا شامل تھا تو نیشنل پریس ٹرسٹ توڑ دو بھی نعرہ تھا اور اصرار کیا جاتا تھا۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ تب نوائے وقت کے زعماء قابل احترام نظامی صاحب بھی یہی مطالبہ کرتے تھے۔ مطالبہ تو مشترک تھا۔ ایک طرف کے لئے کافی تھا کہ این پی ٹی ختم ہو جائے لیکن پی ایف یو جے کی یہ حکمت عملی اس حد تک درست نہیں تھی کہ این پی ٹی توڑ دینے کے بعد کیا ہو میرا خیال ہے کہ تب ان حضرات کے ذہن میں تھا کہ اخبارات واپس پہلے مالکان کو مل جائیں میرے نزدیک یہ حکمت عملی درست نہیں تھی۔ میں نے اپنے راہنماؤں سے عرض بھی کیا تھا قصہ مختصر 1988ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں ادھر پی پی ایل یونین کے انتخابات میں ہمارے ساتھی محمود سلطان صدر ہوئے میں نے ان دنوں اصرار کر کے کہا کہ یہ بہتر وقت ہے پی پی ایل کو ایک ”ورکرز اورینٹیڈ“ ٹرسٹ بنوا لیا جائے، ورنہ اتنا قرض ہے کہ یہ بالآخر اسے بند کر دیا جائے گا۔ یہی موقف میرا پی ایف یو جے میں تھا لیکن کہا یہ گیا یہ (چودھری خادم) خوف پھیلا رہا ہے اور کسی کا ایجنٹ ہے تو قارئین! وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ محترم محمد نوازشریف کے دور میں یہ سب لپیٹ دیا گیا اور سینکڑوں کارکن بے روز گار ہوئے اور رل گئے جب ٹرسٹ ختم ہوا تو ٹریڈ یونین بھی ختم ہو گئی اور ساتھ ہی آزادی صحافت نے بھی دم توڑ دیا کہ جتنی آزادی کارکنوں کی جدوجہد سے ملی وہ محترم نظامی صاحبان (آجروں) کو حاصل ہوئی اور ہم آج بھی آزادی صحافت کا نعرہ لگا رہے ہیں تاہم اب یہ اپنے اپنے مفاد کے لئے ہے۔ قارئین اور صحافی دوستو! داستان طویل ہے عمر نے وفا کی اور صحت نے اجازت دی تو کبھی کتاب لکھ دوں گا 1970-1974ء اور 1977ء کی تحریکوں کے حوالے سے کئی غلط فہمیاں دور کرنا ہیں۔

سمندری طوفان بپر جوئے کا پاکستانی ساحلوں سے ٹکرانے کا عمل شروع

QOSHE -   آزادی صحافت، متنازعہ کیوں؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  آزادی صحافت، متنازعہ کیوں؟

8 1
16.06.2023

سوشل میڈیا پر ایک بار پھر آزادی صحافت کے حوالے سے بات ہو رہی ہے اور بعض دوستوں نے حکومت کی طرف سے بجٹ میں صحافیوں کی انشورنس اور بہبود کے لئے رقم مختص کرنے پر پوسٹ لگائی ہیں اور وزیر اطلاعات کے اسلام آباد پریس کلب جانے پر پر جوش استقبال پر اعتراض کیا ہے۔ ایک برخوردار نے تو پرانی باتوں کا ذکر کر کے پی ایف یو جے کے راہنماؤں کا بھی ذکر کیا اور اسی پوسٹ یا وی لاگ میں ایک دوست نما دشمن کا بھی ذکر کر دیا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں جو وفات پا گئے وہ اللہ کو جواب دہ ہیں، تاہم اگر پی ایف یو جے اور اس کے حقیقی راہنماؤں منہاج برنا، نثار عثمانی، آئی ایچ راشد افضل خان اور عبدالحمید چھاپرہ میں سے کسی کا نام آئے گا تو مجھے اپنے سارے ساتھی بھی یاد آتے چلے جائیں گے، احفاظ ا لرحمن کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں کہ مرحوم نے سب سے بڑی جنگ کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب مرتب کر دی جو آزادی صحافت کی طویل جدوجہد پر مشتمل ہے اس کتاب میں زیادہ سے زیادہ اور ٹھوس معلومات جمع کر دی گئی ہیں اس کے باوجود بہت سی باتیں رہ گئی ہیں اس میں مصنف کا نہیں ہم جیسوں کا قصور ہے جو لاہور سے متعلق مکمل معلومات نہ پہنچا سکے۔ بہر حال اس وقت تو ذکر موجودہ حالات کا ہے جس برخوردار نے تلخ الفاظ میں تنقید کی اس کے لئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا ”اس وقت نہ تو حقیقی پی ایف یو جے ہے اور نہ ہی قیادت، یہ تنظیم برنا ہی کے نام سے کئی حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اس لئے کچھ کہنا مناسب نہیں ضیاء الدین (مرحوم) جب زندہ تھے تو میں نے بھی بھرپور کوشش کی لیکن اتحاد نہ ہو پایا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ایک دو تنظیمیں پی ایف یو جے کے نام سے اپنے پروں پر اڑنے کی کوشش کرتی ہیں اور دو تنظیموں کو اجارہ داروں کی سرپرستی حاصل ہے اور یہ سب اس لئے ہوا کہ ٹریڈ یونین سے ذاتی مفادات وابستہ ہو گئے اور منفعت کا عنصر شامل ہو گیا جبکہ حقیقی دور........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play