
آئی جی پولیس کی آئی جی جیل کے ساتھ پریس کانفرنس
انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران دو مرتبہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین کارکن پر جیلوں میں بداخلاقی جیسے الزامات اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کے حوالے پولیس پر لگنے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے پنجاب پولیس کا موقف پیش کیا ہے کہ سوشل میڈیا پرانہیں بلاجواز تنقید کانشانہ بنایا جارہا ہے وہ قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں نہ تو جیلوں میں کسی کے ساتھ بداخلاقی کی گئی ہے اور نہ ہی کسی بے گناہ کو گرفتار کیا جارہا ہے 30مئی کو ہونیوالی پریس کانفرنس میں آئی جی پولیس کے ساتھ آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نزیر،ایس ایس پی انوسٹی گیشن لاہور اور ڈپٹی کمشنر بھی موجود تھیں جیلوں میں پی ٹی آئی خواتین کارکن کے ساتھ بداخلاقی کے الزام پر افسران نے اپنے موقف پیش کیے البتہ آئی جی جیل میاں فاروق نزیر خاموش رہے اور انہیں میڈیا کے سامنے جیلوں پر موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا حالانکہ ساری گفتگو کا محور جیلیں تھیں بہتر ہوتا کہ آئی جی جیل کو اس بارے میں وضاحت پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا۔گزشتہ روزبھی آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے پریس کانفرنس کی اس دوران ان کے ساتھ لاہور پولیس کے سربراہ،ایس ایس پی ڈسپلن اور ایس ایس پی انوسٹی گیشن بھی موجود تھیں اور ایجنڈا پی ٹی آئی کی ہونیوالی گرفتاریوں کا تھا کہ وہ کسی کے ساتھ زیادتی یا نہ انصافی نہیں کررہے سوشل میڈیا پر انکے خلاف واویلا ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔عین اس وقت جب آئی جی پولیس کی پریس کانفرنس جاری تھی کہ پی ٹی آئی رہنما میاں اسلم اقبال نے ٹویٹ شئیر کردی۔ جسے آئی جی پولیس کے علم میں بھی لایا گیا مگران کا ایک ہی موقف ہے کہ وہ پیش ہو جائیں۔
صومالیہ میں تعینات یوگنڈا کے 54 فوجی قتلٹویٹ کیا ہے؟ ملاحظہ کیجیے اسلام علیکم!جناب محسن........
© Daily Pakistan (Urdu)


