جرمنی کے پہلے چانسلر اوٹو وان بسمارک (Otto von Bismarck) نے ایک دفعہ کہا تھا، سیاست ممکنات کا فن ہے، یہ فن کہ اگلا بہترین فائدہ کیا حاصل کرنا ہے اور اگلی بہترین چال کیا چلنی ہے،میں اس میں تھوڑا سا اضافہ یا ترمیم کرنا چاہوں گا کہ سیاست ممکنات کے ساتھ ساتھ نا ممکنات کا بھی کھیل ہے، اس میں بعض اوقات ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ چند لمحے پہلے یا چند روز قبل جس کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔زیادہ دور کیا جانا یہی دیکھ لیں کہ ٹھیک ایک مہینہ پہلے پی ٹی آئی کہاں کھڑی تھی اور آج اس کی کیا حالت ہے، وہ لوگ بھی پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گئے جو کہا کرتے تھے کہ اگر مجھ سے پی ٹی آئی چھڑوانی ہے تو میرے ماتھے پر گولی مار دو، انہوں نے ماتھے پر گولی کھائے بغیر ہی اپنی پارٹی چھوڑ دی اور ان لوگوں نے بھی پی ٹی آئی چھوڑ دی، سیاست میں آنے سے پہلے لوگ جن کے نام سے بھی واقف نہ تھے، جیسے اپنے عثمان بزدار۔

صومالیہ میں تعینات یوگنڈا کے 54 فوجی قتل

سچ بتائیے جب انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا تو کتنے لوگ انہیں جانتے تھے؟ عمران خان نے دل میں تو کہا ہو گا،یو ٹو بروٹس،انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران 9مئی کے واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ وہ فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے۔ وہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں تین سال سے زائد عرصے تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے، پی ٹی آئی میں اکثر ان کی کارکردگی سے متعلق اختلافات کی خبریں سامنے آتی رہیں لیکن چیئرمین پی ٹی آئی انہیں اپنا وسیم اکرم پلس قرار دیتے تھے۔ پیش گوئیوں کے حوالے سے معروف منظور وسان نے کہا کہ انہیں عثمان بزدارکے پی ٹی آئی چھوڑنے کا دکھ ہوا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دکھ یہ ہے بزدار نے تو کبھی سیاست کی ہی نہیں پھر علیحدگی کس سے اختیار کی؟ہمارے دوست توفیق بٹ کو کسی نے کہا کہ عثمان بزدار نے سیاست چھوڑ دی ہے تو انہوں نے برجستہ کہا،شرافت تو وہ پہلے ہی چھوڑ چکے تھے۔

امریکہ میں پروفیشنل فائٹس جیتنے کے بعد کک باکسرشاہ زیب رند کی وطن واپسی

بات تو سوچ میں ڈالنے والی ہے کہ عثمان بزدار نے سیاست کو چھوڑا، سیاست نے انہیں چھوڑا یا ان سے سیاست چھڑوا لی گئی کیونکہ ان کا تو پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی حوالہ ہی نہیں ہے، ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا سیاست چھوڑنے سے مراد پی ٹی آئی چھوڑنا بھی ہے؟ ظاہر ہے ایسا ہی ہو گا کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ سیاست چھوڑ دی جائے لیکن پی ٹی آئی میں رہا جائے، بطور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا دور کیسا تھا اس بارے میں کسی فیصلے تک پہنچنے کے لئے دماغ پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ پہلی بدقسمتی یہ تھی کہ انہیں راحیل صدیقی جیسا منفی سوچ رکھنے والا پرنسپل سیکرٹری ملا جس نے ان کے ابتدائی دور کا ستیا ناس کر دیا وہ خود کام کرتے تھے نہ وزیر اعلیٰ کو کرنے دیتے تھے،خود کسی کو ملتے تھے نہ وزیراعلیٰ کو کسی سے ملنے دیتے تھے۔بیوروکریسی،حکومت، سیاست یہ ایسے کام تھے جن سے عثمان بزدار کو دور دور تک بھی شناسائی نہ تھی،صحافیوں سے وہ ایسے دور بھاگتے تھے جیسے پرندہ غلیل سے۔ان کے پی آر او اطہر علی خان نے ایک دفعہ بڑی مشکل سے چند صحافیوں سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا،وہ ملے اور کہا یہ صرف غیر رسمی ملاقات اور کھانا ہے،میں نے ان سے چلتے چلتے اکیلے میں کہا آپ اپنی بیوروکریٹک ٹیم بہتر کریں تو مجھے کہتے ہیں میرا تو کمشنر ڈیرہ غازی خان ہی نہیں لگا رہے، میں نے حیرت سے کہا آپ چیف منسٹر ہیں؟کہنے لگے میرے سیکرٹری صاحب کہتے ہیں ضمنی الیکشن کی وجہ سے پنجاب میں پوسٹنگ ٹرانسفر پر پابندی ہے،میں نے کہا مگر آپ کے علاقے میں تو کوئی ضمنی الیکشن نہیں ہے تو بولے ہاں یہ تو ہے،میں نے کہا آپ اپنے سیکرٹری سے کہیں بابر یعقوب فتح محمد سیکرٹری الیکشن کمیشن ہیں ان کو لکھیں وہ اچھے افسر اور پنجاب میں رہے ہیں،وہ اجازت دے دیں گے، تو مجھے وزیر اعلیٰ نے جو جواب دیا وہ ان کے بھولپن اور دفتری امور سے عدم واقفیت کی عکاسی کرتا تھا، کہنے لگے میرے سیکرٹری سے تو یہ ہو نہیں رہا آپ پلیز بابر صاحب کو کہ کے میرا کمشنر لگوا دیں۔

سفارش کے ذریعے حج ڈیوٹیاں لگوانے والے پولیس اہلکار بڑی مشکل میں پھنس گئے

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عثمان بزدار کا دور حکومت انتظامی امور، بیورو کریسی اور صوبے کے دیگر معاملات پر ان کی کمزور گرفت کا غماز رہا، ساڑھے تین برسوں میں کئی بار متعدد تبدیلیاں کی گئیں متعدد اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے تقرر و تبادلے عمل میں لائے جاتے رہے لیکن کہیں بھی کوئی واضح تبدیلی یا کوئی ٹھوس کام ہوتا نظر نہیں آیا۔ان کے ساتھ ”کج شہر دے لوگ وی ظالم سن،کج سانون مرن دا شوق وی سی“، والا معاملہ بھی رہا،ان کو اپنی وزارت اعلیٰ کے اگلے روز کا بھی پتہ نہیں ہوتا تھا پھر مرشد، گوجرانوالہ اور بعض دوسر ے پریشر بھی تھے۔انہوں نے بار باراپنے چیف سیکرٹری،آئی جی اور پرنسپل سیکرٹری بدلے، یوسف نسیم کھوکھر اور پھر میجر اعظم سلیمان خان کی تبدیلیوں نے تو ان کی گورننس کا ستیا ناس ہی کر دیا،میجر اعظم سلیمان کے پانچ ماہ میں انکی گورننس حقیقی معنوں میں گڈ گورننس بنی، مگر انہیں تبدیل کر کے عثمان بزدار نے اپنے پاوں پر کلہاڑا دے ماراتھا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟

اب اس موڑ پر جبکہ پی ٹی آئی انتشار کا شکار ہے اور وسیم اکرم پلس قصہئ پارینہ بننے جا رہے ہیں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت کے زوال میں پنجاب کی عثمان بزدار حکومت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اگر پنجاب میں مستحکم حکمران ہوتا تو پی ٹی آئی کو یقینا یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔

لیکن میں عثمان بزدار کے ایک پلس پوائنٹ کی نشان دہی کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جس کی وجہ سے امورِ سلطنت ان کی گرفت میں نہ آ سکے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے عثمان بزدار سیاسی لحاظ سے کم تجربہ کار تھے، اس کم تجربہ کاری کے ساتھ ان کو وزیر نہیں،بلکہ براہ راست وزیراعلیٰ بنا دیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ عثمان بزدار ایک سادہ لوح،وضع دار انسان ہیں سٹریٹ فارورڈ، سیاسی جوڑ توڑ اور سرکاری معاملات کی پیچیدگیاں سمجھنے کے لئے ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر عثمان بزدار وزیر اعلیٰ کے طور پر ڈلیور نہیں کر پائے تو اس میں ان کے بجائے میں ان کو لانے والوں کو زیادہ ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ وہ اب آگے کیا کرتے ہیں اس کے بارے میں تو وثوق کے ساتھ فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔البتہ یہ واضح ہے کہ انہوں نے اپنی سیاست کی معراج کو پا لیا، اس سے اونچی کرسی تک نہ وہ پہنچ سکتے ہیں نہ انہیں ایسا سوچنا چاہئے۔ عثمان بزدار نے کبھی سیاست کی یا نہیں کی فی الحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی سیاست کا باب بند ہونے جا رہا ہے۔

بین سٹوکس نے ٹیسٹ کرکٹ میں تاریخ رقم کر دی

QOSHE -  عثمان بزدارکی سیاست اور حکومت - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 عثمان بزدارکی سیاست اور حکومت

8 0
05.06.2023

جرمنی کے پہلے چانسلر اوٹو وان بسمارک (Otto von Bismarck) نے ایک دفعہ کہا تھا، سیاست ممکنات کا فن ہے، یہ فن کہ اگلا بہترین فائدہ کیا حاصل کرنا ہے اور اگلی بہترین چال کیا چلنی ہے،میں اس میں تھوڑا سا اضافہ یا ترمیم کرنا چاہوں گا کہ سیاست ممکنات کے ساتھ ساتھ نا ممکنات کا بھی کھیل ہے، اس میں بعض اوقات ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ چند لمحے پہلے یا چند روز قبل جس کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔زیادہ دور کیا جانا یہی دیکھ لیں کہ ٹھیک ایک مہینہ پہلے پی ٹی آئی کہاں کھڑی تھی اور آج اس کی کیا حالت ہے، وہ لوگ بھی پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گئے جو کہا کرتے تھے کہ اگر مجھ سے پی ٹی آئی چھڑوانی ہے تو میرے ماتھے پر گولی مار دو، انہوں نے ماتھے پر گولی کھائے بغیر ہی اپنی پارٹی چھوڑ دی اور ان لوگوں نے بھی پی ٹی آئی چھوڑ دی، سیاست میں آنے سے پہلے لوگ جن کے نام سے بھی واقف نہ تھے، جیسے اپنے عثمان بزدار۔

صومالیہ میں تعینات یوگنڈا کے 54 فوجی قتل

سچ بتائیے جب انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا تو کتنے لوگ انہیں جانتے تھے؟ عمران خان نے دل میں تو کہا ہو گا،یو ٹو بروٹس،انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران 9مئی کے واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ وہ فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے۔ وہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں تین سال سے زائد عرصے تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے، پی ٹی آئی میں اکثر ان کی کارکردگی سے متعلق اختلافات کی خبریں سامنے آتی رہیں لیکن چیئرمین پی ٹی آئی انہیں اپنا وسیم اکرم پلس قرار دیتے تھے۔ پیش گوئیوں کے حوالے سے معروف منظور وسان نے کہا کہ انہیں عثمان بزدارکے پی ٹی آئی چھوڑنے کا دکھ ہوا ہے۔........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play