
سپریم کورٹ کو سی سی پی او لاہور کے تبادلے پر بھی نوٹس لینا چاہیے
سپریم کورٹ میں محکمہ پولیس پنجاب میں سیاسی مداخلت اور ٹرانسفر و پوسٹنگ کیخلاف پانچ روز قبل ایک کیس کی سماعت ہوئی جس میں یہ بات سامنے آئی کہ پولیس افسران کے تبادلے سیاسی مداخلت اور اثر رسوخ سے ہوتے ہیں،معلوم ہوا کہ کہ حالیہ دنوں میں خاتون ڈی پی او لیہ شازیہ سرورکا تبادلہ بھی سیاسی مداخلت پر کیا گیا ہے، یہ تبادلہ مقامی سیاست دان کی مداخلت پر ایوان وزیراعلی سے ہوا، پولیس نے مزاحمت کی لیکن بالآخر خاتون ڈی پی او لیہ نے چارج چھوڑ دیا، پنجاب میں آئی جی پولیس کی اوسط مدت 6 ماہ ہے جو قانون کے مطابق تین سال ہونے چاہیے، چار سال میں پنجاب میں پولیس افسران کو کسی وجہ کے بغیر تبدیل کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسران کے بلاوجہ تبادلوں سے کمانڈ و فوجداری نظام انصاف کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے، ان حالات میں افسران میں سیاسی اثرو رسوخ سے اعلی عہدے حاصل کرنے کا رحجان بڑھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈیٹا کے مطابق پنجاب میں ڈی پی او کی اوسط ٹرم پانچ ماہ ہے، چار سالوں میں پنجاب میں 268 ڈی پی اوز کے تبادلے ہوئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کے سابق آئی جی احسن یونس بڑے پڑھے لکھے اور شائستہ افسر تھے، سندھ ہاؤس پر حملے کے معاملے کو بڑے اچھے انداز میں ڈیل کیا، وہ بھی تبدیل ہوگئے۔سپریم کورٹ نے سیاسی مداخلت و پولیس افسران کے تبادلے پر پنجاب حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔سپریم کورٹ نے مقدمہ کا دائرہ وفاق اور دیگر صوبوں تک بھی وسیع کرتے ہوئے وفاق اور باقی صوبوں سے بھی دو ہفتوں میں پولیس میں ٹرانسفر و پوسٹنگ پر جواب اور گزشتہ 8 سال کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت........
© Daily Pakistan (Urdu)


