نعیم مسعود
شوق کا تو پوچھئے ہی نہ، سب کے من کے اندر آتش فشانیاں ہوا کرتی تھیں کہ موقعیت (اسٹیٹس کو) کا قلع قمع ہو ، افسر شاہی صراطِ مستقیم پر دیکھیں، تھانے، کچہری، اور عدالتوں کے ماتھے پر اصلاحات کا نور ہو ۔ اَسی کی دہائی تک کالج اور یونیورسٹی کا ہر چوتھا طالب علم تبدیلی کا خواہاں تھا، اور اس تبدیلی کی خاطر اس نے اپنا ایک خاص پلیٹ فارم بھی چُن رکھا ہوتا۔ کسی کی مورچہ بندی اسلامی جمعیت طلبہ اور کسی کی جمعیت طلبہ اسلام کے نام سے تھی، پھر انجمن طلبہ اسلام اور امامیہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جنم بھی ہوئے۔ پی ایس ایف اور ایم ایس ایف کے دما دم مست قلندر الگ تھے۔ مقامی نوعیت کے اتحاد اپنی جگہ تھے تاہم ہر کوئی تبدیلی کیلئے کوشاں تھا ہر کوئی نہیں کچھ جذباتی عناصر انقلاب کی باتیں بھی کرتے۔ اُس وقت لوگ ہم عصر مطالعاتی ذوق اور سوسائٹی کو نئے نئے زاویوں سے دیکھنے کے متمنی تھے مقتدرہ پسند، سٹیٹس کو پسند کرتے مگر حقیقی لیڈر شپ اسٹیٹس کو ہمیشہ سےچیلنج کرتی دکھائی دی۔ لیکن آج کا طالب علم اپنا پلیٹ فارم ہی نہیں رکھتا۔ طلبہ سیاست دم توڑ چکی ہے اور تعلیمی کوچہ و بازار میں پروفیسر سیاست کا راج ہے، اور یہ اساتذہ سیاست بھی محض اپنی پروموشن، خود کو کمیٹیوں اور اپنے بچوں کو نوکریاں دلوانے کیلئے ہے، کسی تربیت سازی اور ریاستی بناؤ کیلئے ہر گز نہیں! تاریخ سے ناآشنا سمجھتا ہے کہ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ پہلی دفعہ آیا ہے، جو لوگ تاریخ اور سیاست کو قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ہٹلر اور مسولینی کو سیاست سے ایک قدم آگے بڑھ کر چاہا گیا کچھ نے تو پوجا شروع کردی۔ وہ لوگ سوئے بھی ہوتے تو چاہنے والے کہتے بہتری کے انقلاب کو تقویت پہنچانے کیلئے خواب دیکھ رہے ہیں گویا شاہ سے زیادہ شاہ کو چاہا جائے تو وہ نرگسیت کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے، یہ ان لیڈران کے ساتھ ہوتا ہے جن........
© Daily Jang
visit website