مظہر برلاس

اس مرتبہ پنجاب کے کسانوں کے ساتھ بڑا ہاتھ ہوا ہے، انہوں نے بڑی محنت سے گندم کی فصل تیار کی، وہ بہت خوش تھے کہ اس دفعہ فصل شاندار ہوئی ہے مگر کسانوں کی خوشیاں، کسان دشمن پالیسیاں بنانے والے کب دیکھ سکتے ہیں۔ کسانوں کے ساتھ کس طرح کھیلا گیا، اس کھیل کا تسلسل ملاحظہ فرمائیے۔ 3اپریل کو پنجاب کابینہ کا اجلاس مریم نواز کی صدارت میں ہوا، اس اجلاس میں گندم کی سپورٹ پرائس 3900روپے مقرر کردی گئی۔ 4اپریل کو ایک اور حکومتی دعویٰ سامنے آیا کہ حکومت چار لاکھ چھوٹے بڑے کاشتکاروں کو باردانہ مہیا کرے گی۔ 7اپریل کو یہ ہوا کہ پنجاب حکومت نے باردانہ کو لے کر چار لاکھ میں سے دو لاکھ چھوٹے کاشتکار شارٹ لسٹ کیے اور کہا کہ ان سے گندم 3900 روپے کے حساب سے خریدی جائے گی۔ سادہ لوح کسانوں کو 8 اپریل کو ایک اور نوید سنائی گئی کہ پنجاب میں پہلی بار کسان دوست حکومت قائم ہوئی ہے۔ 9اپریل کا دن بڑا عجیب تھا، اس دن کے اعلان نے کسانوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، اس روز کہا گیا کہ پنجاب حکومت کے پاس لاکھوں ٹن امپورٹڈ گندم موجود ہے اور پنجاب حکومت پہلے ہی اس سلسلے میں ساڑھے تین سو ارب کی مقروض ہے۔ 11اپریل کو مریم اورنگزیب نمودار ہوئیں، انہوں نے بالکل ہی کورا، چٹا جواب دے دیا کہ ہمارے پاس گندم خریداری کیلئے پیسے ہی نہیں۔ اس صاف جواب کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پریشر بڑھا تو پریشر کم کرنے کیلئے نواز شریف میدان میں اتر آئے۔17اپریل کو بتایا گیا کہ نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت ہر حال میں کسانوں سے گندم خریدے گی۔ دو دن بعد ہمارے حسابی........

© Daily Jang