نعیم مسعود
کون سا سیاسی نظریہ اچھا تھا اور کون سا بُرا یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن ستر کی دہائی میں ایک تقسیم وجود میں آئی تھی یہ سب جانتے ہیں۔ اس تقسیم کے پیش منظر اور پس منظر کافی حد تک محتشم تھے، اپنی اپنی شان و شوکت تھی، مکالمہ تھا، ہنگامہ تھا ، کسی حد تک گالی بھی تھی اور الزام تراشی بھی۔ لالچ اور ہوس کے پھول کس سیاسی باغیچے میں نہیں اُگتے؟ کل بھی اُگتے تھے اور آج بھی نشوونما پاتے ہیں۔ اگر کہیں شان و شوکت کی ہلکی رمق ہو بھلے وہ خوابیدہ ہی ، کبھی نہ کبھی وہ کروٹ ضرور لیتی ہے، اور بیدار بھی ہوتی ہے!
’’کبھی نہ کبھی‘‘سے مجھے عرفان صدیقی (ن لیگ والےنہیں، لکھنؤ والے) کا ایک شعر یاد آگیا کہ:
ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی
ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے
لیکن جو تقسیم عہد حاضر میں ایک زبردستی والی تقسیم ہے ، کیا اسکے تقسیم کاروں کو اتنی زیست ملے گی کہ وہ خود سے جاگیں ؟ کہاں ایک وہ فیض ہوا کرتے تھے جو فیض در فیض تھے کہاں آج کے تقسیم کار فیض جو جرنیلی سمیت قصہ پارینہ ہو گئے مگر ان کی تقسیم کے کانٹے ہیں بہت زرخیز جنہیں چنتے چنتے عمران خان کی بھی عمر بیت جائے گی اور تلوے ہمارے بھی لہو لہان رہیں گے۔ جانے والے تو چلے گئے اب کف پا جانے یا کانٹے جانیں۔ ویسے شاہد خاقان عباسی کے صدقے جائیں کہ انہیں ان’’فیض‘‘صاحب سے کوئی شکایت نہیں رہی کیونکہ عباسی صاحب نے پچھلے دنوں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’میں نے نہیں دیکھا کہ جنرل ( ر ) باجوہ اور فیض حمید نے آئین توڑا ہو۔‘‘ کہتے تو ٹھیک ہیں آئین ٹوٹتا کب ہے، توڑنے والے ہی قومی ڈالی سے مرجھا کر گر پڑتے ہیں۔ آئین تو زندہ دستاویز ہے جو چمن کو سر سبز و شاداب رکھنے میں مگن رہتی ہے۔ خیر بقول آغا شاعر قزلباش: پامال کر کے پوچھتے ہیں کس ادا سے وہ / اس دل میں آگ تھی مرے تلوے جھلس گئے۔
راوی........
© Daily Jang
visit website