۔گل نو خیز اختر

بخدمت جناب تھانیدار صاحب! میں آنے والے الیکشن میں ایم این اے کی سیٹ کا امیدوار ہوں اور مسلسل زیادتیوں کا شکار ہوں۔آپ کی فوری اور بھرپور مدد درکار ہے۔ جناب عالی! میں قوم کے وسیع تر مفاد میں الیکشن لڑ رہا ہوں۔ ہر بڑی پارٹی نے مجھے ٹکٹ کی پیشکش کی لیکن میں نے ٹھکرا دی کیونکہ ضمیر نہیں مانتا تھا۔میں نے ہمیشہ ضمیر کی سنی ہے اور ضمیر کے مطابق ہی زندگی گزاری ہے۔ میں نے اپنی اہلیہ سے مشورہ کیا تو اُس نے بھی کہا کہ آپ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں ۔ تھانیدا رصاحب! میں الیکشن میں کھڑا تو ہوگیا ہوں لیکن میرے مخالفین کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ اُنہیں یقین ہوگیا ہے کہ ٹونی بڈاوا جیتے ہی جیتے۔ یاد دہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ میں نے پچھلے الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا ۔لیکن مخالفین کی طرف سے ایسی گھنائونی دھاندلی کی گئی کہ میں بتا نہیں سکتا۔پہلے تو انہوںنے الیکشن کمیشن سے ساز باز کرکے مجھے مولی کا نشان الاٹ کروا دیا۔ میں جس کو بھی کہتا کہ مولی پر مہر لگانا وہ آگے سے حیرت کا اظہار کرتا کہ مولی پر تو نمک لگایا جاتاہے۔الیکشن والے دن میں نے اپنے کیمپ میں مولی والے پراٹھوں کی دعوت بھی رکھی ۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا مخالفین مضبوط تھے، انہوں نے کسی کے کان میں ڈال دیا کہ بڈاوے نے پراٹھوں میں موم بتیاں کاٹ کر ڈالی ہیں۔ یہ سنتے ہی میرا کیمپ خالی ہوگیا اورووٹر کی کثیر تعداد مجھ سے بددل ہوگئی۔تھانیدار صاحب صرف یہی نہیں بلکہ مخالفین نے پتا نہیں کون سا حربہ استعمال کیاکہ الیکشن کے بعد بیلٹ باکس کھولے گئے تو70 ہزار کے حلقے میں سے میرے 69984ووٹ نہ صرف کم نکلے بلکہ ووٹ کی ہر پرچی پر مہر کی بجائے گالیاں لکھی ہوئی پائی گئیں۔میں نے پھر بھی صبر کیااور سب کچھ وقت پر چھوڑ دیا۔ آج پھر میں الیکشن میں کھڑا ہوا ہوں۔ پچھلے الیکشن سے آج تک میں نے اپنے حلقے میں بھرپور کام کیے ہیں۔میں نے خواتین کے دوپٹے پیکو کروائے، پانی نہ........

© Daily Jang