نعیم مسعود
پاک سیاست کے کئی رنگ ہیں۔ کیا اسے سیاسی کہکشاں کہیں یا گرگٹ کے رنگ؟ وہ دایاں بازو اور بایاں بازو کے سیاسی رنگ غائب، سیاست کا مُلا اور مسٹر بھی ہائبرڈ ہو چکا !
مولوی پھیکے ہوچکے سوائے مولانا فضل الرحمٰن کے،جماعت اسلامی اسلامی جمعیت طلبہ کے رنگ کے بغیر بے رنگ ہو چکی کہ پریشر گروپ بھی نہیں رہی۔ مولانانورانی اور مولانا عبدالستار نیازی کے بعد جمعیت علمائے پاکستان کا وجود تقریباً ختم۔جمعیت علمائے اسلام کا مولانا سمیع الحق کا دھڑا بھی زیرو ہو چکا۔ نئی پود مولانا غلام غوث ہزاروی کے سنگ درخواستی و غیر درخواستی نقطہ نظر سے بھی ناآشنا ۔ چاہنے والوں کے ہاں بھی محمود حسن دیوبندی یا حسین احمد مدنی کی چاہت نہیں ملتی؟ عمر بھر مطالعہ پاکستان سے پڑھ کر بھی کیوں شاہ ولی اللہ، عبیداللہ سندھی اور شبیر احمد عثمانی دل میں گھر نہ کر سکے؟ پھر عطاء اللہ شاہ بخاری کے خدمات اور سحر بیانی کی اہمیت بھی کیوں غیب ہے؟ جمعیت اہلحدیث اینڈ کمپنی کے سیاسی کاموں سے میں ہی آشنا نہیں تو اور کون ہوگا؟ اب کہیں مولانا محمد گوندلوی کا نام ہے نہ مولانا اسماعیل سلفی و مولانا محمد عبداللہ کا۔ چار دن علامہ احسان الٰہی ظہیر کی تقاریر کی بازگشت اور ضیائی مخالفت کا چرچا رہا کہ وہ آمریت مخالف تھے، شہادت سے قبل اور بم کا نشانہ بننے سے ذرا پہلے وہ ضیاء سے سوال کر رہے تھے کہ سیاچین کا بڑا حصہ آپ کے دور میں انڈیا نے ہڑپ کیا، اس پر ضیائی موقف تھا کہ وہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی، پس علامہ کا کہنا تھا’’ گھاس تو تمہارے سر پر بھی نہیں اُگتی‘‘۔
خیر، ایسا نہیں کہ وہ کتابیں یا دل نہیں رہے کہ جن میں متذکرہ آباد نہیں۔ آباد تو ہیں لیکن شہر خموشاں طرز پر حالانکہ یہ سب عمائد اور کرم فرما زندہ حقیقتیں ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب سیاسی و نظریاتی حقائق ہیں تو کیا کسی سیاسی و نظریاتی ارتقاء نے جنم لیا ہے؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ دایاں بازو اور بایاں بازو نظریات بھی کسی ارتقاء کے نذر ہوگئے؟ سیاست........
© Daily Jang
visit website