اسرائیلی جارحیت اور ہماری ذمہ داریاں





گزشتہ آٹھ ماہ سے اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم کی وہ مثالیں قائم کر رہا ہے کہ ماضی میں جس کی نظیر ڈھونڈنامشکل ہے۔ امریکہ نے عالمی جنگ میں ہیروشیما پرجتنا بارود برسایا تھا اتنا یااس سے زیادہ بارود اسرائیل غزہ پر اب تک برسا چکا ہے۔ امریکہ کی بیس سالہ افغان جنگ کے دوران اور شام میں گزشتہ چار سال میں اتنا جانی ومالی نقصان نہیں ہوا جتنا اسرائیل گزشتہ آٹھ ماہ میں فلسطین میں کرچکا ہے۔ آج کی تاریخ تک جاری اس جنگ میں شہادتوںکے جو اعداد وشمار بتائے جارہے ہیں،حقیقت میںجانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ جنگی حالات میں جانی و مالی نقصان کا کبھی بھی صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔پھر یہ کہ غزہ کے سکولوں، ہسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں پر صہیونی فوج کی بمباری جاری ہے اور اطلاعات کے مطابق غزہ میں 80 فیصد گھر تباہ کر دیئے گئے ہیں۔بعض ذرائع کے مطابق 90 فیصد آبادی شدید موسم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بیس لاکھ سے زائد افراد تک بجلی،گیس،تیل کے علاوہ خوراک،پانی اور جان بچانے والی ادویات کی رسائی بھی روک دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گیارہ لاکھ فلسطینی مسلمان بھوک اور خوراک کی کمی کے باعث زندگی سے زیادہ موت کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ غزہ میں امداد فراہم کرنے والے ادارے ’’اونروا‘‘پر جھوٹے الزام لگاکر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ صہیونی فوج غزہ، جبالیہ،دیر........

© Daily 92 Roznama