علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
روایتی صحافت کا مددگار ہونے کے بجائے سوشل میڈیا اس کے زوال کا کلیدی سبب بن ر ہا ہے۔’’بکائو‘‘ یا فرسودہ صحافت کی موت میرے لئے فکرمندی کا باعث نہیں۔اصل خوف یہ لاحق ہورہا ہے کہ ’’صحافت‘‘ کا خاتمہ معاشرے کو حقیقی مسائل سے بیگانہ بنارہا ہے۔سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر چسکے سے کہیں زیادہ’’نفرت‘‘بِکتی ہے۔ نفرت فروشی کی خاطر سوشل میڈیا پر چھائے افراد نامور لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں گند ڈھونڈنے اور اسے پبلک کے روبرو لانے کو بے چین رہتے ہیں۔یوں حقیقی مسائل کی نشاندہی تک نہیں ہوپاتی۔ ان کا حل ڈھونڈنے کے لئے حکمرانوں اور شہریوں کو مائل کرنا تو دور کی بات ہے اور مسائل کی نشاندہی اور ان کے مداوے کی طلب بڑھانا ہی حقیقی ’’صحافت‘‘ کا بنیادی فریضہ ہوا کرتاتھا۔
8فروری کے ا نتخابات کے بعد خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور روایتی اور سوشل میڈیا میں بہت نمایاں ہورہے ہیں۔ سوشل میڈیا اشاروں کنایوں میں یہ سوالات اٹھاتے ہوئے چسکہ فروشی کی دوکان چلانے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ 9مئی کے واقعات کے بعد ریاستی اداروں کے قابو میں کیوں نہیں آئے۔ انہیں ’’تحفظ‘‘ کس نے فراہم کیا اور یہ ’’معجزہ‘‘ کیسے سرزد ہوگیا کہ مبینہ طورپر ہنگامہ آرائی کی کئی وارداتوں میں ملوث شمار ہوتے علی امین گنڈا پور کو نہ صرف انتخابات میں حصہ لینے کی ’’اجازت‘‘ بھی مل گئی بلکہ بعدازاں وہ ملک کے حساس ترین صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی ’’بآسانی‘‘ منتخب ہوگئے۔
ان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوجانے کے بعد تحریک انصاف کے اپنے تئیں محافظ وترجمان ہوئے ’’صحافیوں‘‘ نے علی امین گنڈاپور کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقاتوں پر........
© Nawa-i-Waqt
visit website