شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
مشہور زمانہ ’’فیض آباد دھرنا‘‘ آج سے سات برس قبل نومبر 2017ء میں ہوا تھا۔ راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والی شاہ رگ نما سڑک پر ’’دینی جذبات‘‘ سے مغلوب ہوئے ہجوم نے دو ہفتوں تک ٹریفک کو معطل کئے رکھا۔ اس کی وجہ سے معمولات زندگی درہم برہم ہوگئے۔ بچوں کو سکول بھیجنا اور مریضوں کو ہنگامی حالات میں بھی ہسپتال تک پہنچانا ناممکن ہوگیا۔ ’’ہر لمحہ کی خبر‘‘ دینے کے دعوے دار ہمارے ’’بے باک‘‘ میڈیا کو مگر یہ حکم تھا کہ وہ ہجوم کے ہاتھوں یرغمال ہوئی وفاقی اور پنجاب حکومتوں پر رحم کریں۔ لوگوں کو یہ ’’خبر‘‘ ہی نہ دیں کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان موجود چوک پر کیا ہورہا ہے۔حکومت نے کس فیصلے سے ہجوم کو مشتعل بنایا اور زندگی کی معطلی کا سلسلہ کتنے دن تک جاری رہ سکتا ہے۔
کامل بے بسی اور اضطراب کے اس ماحول سے اکتا کر میں ’’خودکش‘‘ ہوگیا۔ شام آٹھ بجے جس ٹی وی پر ایک ٹاک شو کرتا تھا وہاں فیض آباد دھرنے کو زیر بحث لانے کا ارادہ باندھ لیا۔ اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے دیکھنے والوں کے ٹیلی فون بھی براہ راست لینا شروع کردئے۔ ہم سے رابطہ کرنے والوں کی اکثریت ان مائوں پر مشتمل تھی جو گھر چلانے اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے مختلف دفتروں میں کام بھی کرتی تھیں۔ بچوں کو سکول بھیجنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔ اس کے علاوہ کھانا پکانے کے لئے بازار سے سودا سلف لانے کی مجبوری بھی۔ پروگرام کے محدودوقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے ان خواتین کو زیادہ سے زیادہ وقت فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ان کی بدولت ملک بھر کے ناظرین کو بھرپور انداز میں اس امر کا اندازہ ہوگیا کہ شاہد خاقان عباسی کی وفاقی اور ’’شہباز سپیڈ‘‘کے ساتھ چلائی پنجاب حکومت جذبات سے مغلوب ہوئے ہجوم کے ہاتھوں کتنی بے........
© Nawa-i-Waqt
visit website