میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
جب سے ہوش سنبھالا ہے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ اطلاع بھی اکثر ملی کہ جن دنوں بغداد کے گردمنگول لشکر آخری حملے کو جمع ہورہا تھا تو اس شہر کے باسی اس کے بارے میں قطعاََ بے خبر وبے نیاز تھے۔ اس شہر کے بازاروں میں روزمرہّ زندگی کے مسائل کے حوالے سے بے فکر رہائشی نہایت سنجیدگی سے دھڑوں میں بٹے یہ طے کرنے میں مصروف تھے کہ طوطا حلال ہے یا حرام۔ دورِ حاضر کے سوشل میڈیا پر ہیجان سے مغلوب ہوئے گروہوں کی توتکار دیکھتا ہوں تو فروعی موضوعات پر مناظروں میں الجھا قدیم بغداد یاد آجاتا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے مابین بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے نمودار ہوتی فروعات اس تناظر میں مزید پریشان کررہی ہیں۔
منگل کی صبح چھپے کالم میں مذکورہ بالا ہیجان کا ذکر نہایت فکر مندی سے کیا تھا۔ پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایران-اسرائیل کشیدگی کے حوالے سے نمایاں ہوا پھکڑپن میری دانست میں ’’مسلکی‘‘ بنیادوں پر مسلط ہوئی تقسیم کا اظہار بھی تھا۔ پڑھنے والوں کو مگر ’’مسلکی‘‘ کے بجائے ’’ملکی‘‘ نظر آیا۔ اپنی بات لہٰذا سمجھانہیں پایا۔سانپ گزرجانے کے بعد اب لکیر پیٹتے ہوئے خیال آرہا ہے کہ مجھے ابتداہی میں ’’مسلکی‘‘ کے بجائے ’’مسلک‘‘ کی بنیاد پر ہوئی تقسیم لکھنا چاہیے تھا۔ بعدازاں ’’مسلکی‘‘ کے بجائے ’’ملکی‘‘ ٹائپ ہوگیا تو پروف ریڈنگ کرتے ہوئے اس کی نشاندہی نہ کرپایا۔
ایک اور غلطی یہ بھی ہوئی کہ ایران کے اسرائیل پر حملے کو والہانہ انداز میں سراہتے گروہ کا ذکر کرتے ہوئے میں نے ان سے منسوب فقرے میں اصل عدد نہیں لکھا۔ مذکورہ گروہ ایران کو ’’54بہنوں‘‘ یعنی اسلامی ممالک کا اکلوتا بھائی نہیں........
© Nawa-i-Waqt
visit website