گندم کی بمپر کراپ اور آٹے کا بحران
نصرت جاوید
گزشتہ ہفتے کے آخری کالم میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ عمر کے آخری حصے میں جی مچل رہا ہے کہ اپنی مادری زبان کے بجائے اردو یا انگریزی میں لکھنے کی مشقت سے نجات پائی جائے۔ پنجابی میں کالم نہ سہی کسی اور صنف میں بھی تخلیقی اظہار کے لیے اس زبان کے کلاسیکی ادب سے رجوع ضروری ہے۔اس ضمن میں وارث شاہ کی ہیر کا بغور مطالعہ بھی درکار ہے۔گھر پہ رکھا ہیر کا مستند نسخہ ڈھونڈ کر لیکن اسے پڑھنا شروع کیا تو بے شمار الفاظ کے معنی اور تلفظ سے لاعلمی کا شدید احساس ہوا۔ نہایت شرمساری تو اس وقت محسوس ہوئی جب میں نے ہیر کو اردو ترجمہ کے ساتھ پڑھنا لازمی تصور کیا۔
اپنی شرمساری کا اعتراف اس کالم میں کیا تو بے شمار دوستوں نے میرے خلوص کو سراہا۔ مجھے چند کتابوں کے نام بھیجے جن کی بدولت ہیر کو آسان اردو یا انگریزی زبان میں سمجھا جاسکتا ہے۔ تلفظ کو درست رکھنے کے لیے چند یوٹیوب چینلوں کے لنک بھی دیے جو ہیر گانے والے چند بڑے فن کار چلارہے ہیں۔ میری کوشش ہوگی کہ دن کے چند لمحات کچھ روز کے لیے فقط ہیر پڑھنے اور سننے کے لیے وقف کردوں۔ ہیر پڑھنے اور سننے کے بعد پنجابی میں اظہار خیال کے قابل نہ ہوا تب بھی کئی معاملات کو وارث شاہ کے ذہن سے دیکھنے کی صلاحیت نصیب ہوسکتی ہے۔
سنا ہے کہ ہر زبان کا زندگی کے بارے میں ایک مخصوص زاویہ نگار ہوتا ہے۔ پنجابی زبان بھی یقینا زندگی کو ایک خاص اندازسے دیکھتی ہوگی۔ برجستگی اور مزاح میری دانست میں اس کی سرشت میں شامل ہیں۔ ساتھ ہی تاہم زندگی کی بے ثباتی کا شدید احساس بھی ہے اور ’ڈاہڈے (ظالم)‘ حکمرانوں کی براہ راست مذمت اگرممکن نہ ہو تو ان سے دوری کی تمنا تو ہر صورت ظاہر ہوتی ہے۔ معاملات کو ’پنجابی‘ نگاہ سے دیکھنے کے لیے مگر وقت درکار ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس وقت تک یہ کالم لکھا جائے یا نہیں۔ جواب........
© Nawa-i-Waqt
visit website