"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
اندھی نفرت وعقیدت نے ہمیں واقعتا دیوانہ بنادیا ہے اور میڈیا اس تقسیم کو بھڑکاتے ہوئے خود کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔میری بات پر اعتبار نہیں تو ذرا سوچیں کہ پیر کے دن رات گئے تک ریگولر اور سوشل میڈیا پر کونسی کہانی زیر بحث رہی۔ آپ کی آسانی کے لئے بتادیتا ہوں کہ پیر کے دن سب سے زیادہ زیر بحث رہی کہانی لاہورکے ایک ایسے تعلیمی ادارے سے متعلق تھی جس کی دیوار کے باہر میرے اور آپ جیسے بے وسیلہ پاکستانی(اگر لاہور کے باسی ہیں) تو ہزاروں بار گزرے ہوں گے۔اس کے اندر جانے کا موقعہ مگر کبھی نصیب نہیں ہوا۔ بطور صحافی ایک زمانے تک میں بہت پھنے خان شمار ہوتا تھا۔ میری پھنے خانی بھی لیکن مجھے اس ادارے کے روزمرہّ نظام اور طریقہ تدریس تک رسائی کے مواقع میسر نہیں کرپائی۔
اندرون لاہور کے جس محلے میں بچپن سے جوانی کی حدوں میں داخل ہوا وہاں ایک مالدار خاندان بھی رہتا تھا۔اس کے رکن ’’پیدائشی رئیس‘‘ شمار ہوتے تھے۔وہاں کا ایک بچہ اپنے گھر سے ہر صبح سکول جانے نکلتا تو ایک ملازم کے ہاتھ میں اس کی کلف لگی پگ ہوتی۔ اپنی گلی سے تھوڑی دور چل کر وہ ایسے مقام تک آتا جہاں اس کی گاڑی ڈرائیور سمیت کھڑی ہوتی۔ بچہ اس کی پچھلی نشست پر بیٹھ کر اپنے سکول روانہ ہوجاتا اور میں بدنصیب اس کے ٹھاٹھ حیرت سے محو ہوئے عالم میں دیکھنے کے بعد پیدل ہی رنگ محل مشن ہائی سکول کی جانب روانہ ہوجاتا۔
کچھ برس گزرنے کے بعد دریافت ہوا ’’خاندانی رئیسوں‘‘ کا یہ بچہ لاہور کے گورنر ہائوس کے ہمسائے میں واقعہ ایک سکول میں جاتا تھا جسے ہمارے محلے کے بزرگ ’’چیف کالج‘‘ پکارتے تھے۔مجھے بتایا گیا کہ وہاں داخل ہوئے بچوں کے لئے پگ کا استعمال لازمی ہے۔ دوران تعلیم وہ گھڑ سواری بھی کرتے ہیں۔یہ کالج انگریزوں نے بنایا تھا اور وہاں فقط ’’جدی پشتی رئیسوں‘‘ کے بچے ہی داخل ہوسکتے ہیں۔ کالج........
© Nawa-i-Waqt
visit website