کچھ ہفتے پہلے کی بات ہے، پی ٹی آئی کے ادارے گیلپ نے ایک سروے تخلیق کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ پڑھے لکھے افراد یعنی نوجوانوں کی بھاری اکثریت پی ٹی آئی میں ہے۔ سروے کی دلچسپ بات یہ تھی کہ اس میں موازنہ نوجوانوں کو پڑھے لکھے اور بڑی عمر کے لوگوں کو ان پڑھ قرار دے کر کیا گیا تھا۔ کسی ستم ظریف نے لکھا، تمام بڑی عمر کے لوگ پی ٹی آئی کے اس گیلپ نامی ادارے کے خیال میں ان پڑھ ہیں تو نوجوان کی حد کیا ہے یعنی کس عمر کے لوگ نوجوان بمعنی پڑھے لکھے قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ہم مان لیں کہ 30 سال کی عمر نوجوانی کی آخری حد ہے تو گیلپ کے ’’سربراہ‘‘ عمران خان کی عمر کیا ہو گی؟۔ غالب گمان یہ ہے کہ 30 سال سے کچھ زیادہ نہیں ہو گی۔
____
مذاق اپنی جگہ لیکن بات جو گیلپ نے دریافت کی ، وہ درست تھی۔ نہ صرف پڑھے لکھے بلکہ محقق اور ریسرچ کالرز کی جتنی بڑی تعداد پی ٹی آئی میں ہے، اتنی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما بلکہ جزائر انڈیمان میں بھی کسی اور جماعت میں نہیں ہو گی۔
یہاں محض ایک ریسرچ سکالر کا ذکر مقصود ہے جس نے پنجاب اسمبلی میں اپنی ریسرچ کا نمونہ پیش کر کے ادبیات و تنقیدات اور تنقیحات کی دنیا میں تہلکہ برپا کر دیا۔ انہوں نے مرزا غالب کا ایک شعر اپنے کسی موقف کے حق میں پیش کیا۔ شعر حرف بحرف ان کی ’’وڈیو‘‘ کے مطابق یوں ہے
اپنے ہی قدموں پر کھڑا ہوتے لوگ اے مرزا غالب
دوسروں کے کندھے پر تو جنازہ آتا ہے۔
مرزا غالب کو لوگ یونہی استاد نہیں کہتے۔ دیکھئے کس کمال کا استادانہ شعر ہے۔ قدموں کے ساتھ کھڑا ہونے کا تلازمہ لگا کر تخلص کا بھرپور استعمال کیا کیسے۔ پھر اس لافانی حقیقت کو کس طرح نغمہ بار مصرعے میں پرویا ہے کہ دوسروں کے کندھوں پر تو جنازہ ہی آیا کرتا ہے۔ مرزا کی اصل استادی یہ ہے کہ اس شعر میں پہلے مصرعے کا ’’وزن‘‘ کلو گرام کے حساب سے ہے تو دوسرے کا ہاف کلو گرام کے حساب سے۔ پہلا مصرعہ بحر دبّڑ دھوس میں تو دوسرا بحر چھپّڑ پھونس میں لکھا گیا ہے۔ یوں استاد نے ایک ہی شعر میں دو بحور کا استعمال کر کے استادی کی تاریخ میں نئی استادی رقم کر دی۔ اور شعر میں بتائے گئے خیال کی ندرت، بلندی اور رعنائی کا تو پوچھئے ہی مت۔
____
پی ٹی آئی کے اس مایہ ناز پڑھے لکھے ریسرچ سکالر کا نام حافظ فرحت عباس بتایا گیا ہے۔ اس سے پہلے مرزا غالب کے دیوان کے کئی ’’ورڑن‘‘ دریافت ہو چکے ہیں۔ معروف ترین ورڑن نسخہ حمیدیہ، نسخہ عرشی، نسخہ کالیداس گپتا والے دیوان ہیں۔ اب اصل نسخہ دریافت ہوا ہے جسے نسخہ حافظہ فرحتیہ عباسیہ کا نام دیا جانا چاہیے۔ یہ نسخہ کہاں سے دریافت ہوا، یہ عقدہ ابھی واپس ہوا۔ شنید ہے کہ بنی گالہ کی پڑھی لکھی لیبارٹری سے برآمد ہوا ہے، واللہ اعلم۔
قبل ازیں علامہ اقبال کے بھی بہت سے ’’غیر مطبوعہ‘‘ بلکہ قطعی غیر مطبوعہ اشعار پی ٹی آئی کے متعدد در متعدد ریسرچ سکالر اپنے جلسوں، ٹی وی شوز وغیرہ میں بیان کر کے دادِ خلائق پا چکے ہیں۔ افسوس مقتدرہ اردو زبان سے لے کر مجلس ترقی ادب سمیت کسی علمی خانقاہ نے ان سب کو اکٹھا کر کے بانگ درا یا بال جبریل کا اضافہ شدہ ایڈیشن چھاپنے پر توجہ نہیں دی۔
مشفق خواجہ تو رخصت ہوئے، تحسین فراقی حیات ہیں، فوراً حافظ فرحت عباس سے رابطہ کر کے غالب کا قرض ادا کرنے کا انتظام فرمائیں۔
____
پتنگ کی ڈور سے ایک اور جان گئی، ایک اور گھرانہ اجڑ گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے نہ صرف واقعے کا نوٹس لیا بلکہ دھاتی اور کیمیاوی ڈور بنانے والوں کیخلاف کریک ڈائون کا حکم بھی دیا۔ اطلاعات کے مطابق کریک ڈائون پر عملدرآمد سنجیدگی سے جاری ہے۔
غیر سنجیدہ عملدرآمد ماضی میں بہت ہوئے۔ پولیس پتنگ اڑانے والے بچوں کی گرفتاری کر کے ذمہ داری سے سبکدوش ہو جایا کرتی تھی۔ اس بار معاملہ الگ سا لگ رہا ہے۔
پتنگ بازی اور ملکوں میں بھی ہوتی ہے اور پاکستان سے کہیں زیادہ ہوتی ہے لیکن جانیں صرف پاکستان میں جاتی ہیں۔ پہلے پاکستان میں بھی معاملہ پرامن ہلّے گلّے تک محدود تھا لیکن پھر پرویز مشرف اور پرویز الٰہی کی جوڑی آ گئی جس نے کم از کم پنجاب کی حد تک اس تہوار کو خونی بنا دیا۔
حق سچ کی بات تو یہ ہے کہ دھاتی، شیشے اور کیمیکل والی ڈور بنانے اور بیچنے والوں کو موت کی سزا دی جائے۔ ان کی ڈور سے کوئی نہ مرے تب بھی، اس لئے کہ ان کا زمرہ وہی ہے جو بم رکھنے والے دہشت گرد کا ہے۔ اس نے بم رکھ دیا، پھٹا نہیں تو بھی وہی سزا ہے جو پھٹنے پر ہوتی۔
____
داعش خراسان نے ماسکو کے تھیٹر پر حملہ کیا، ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد مار ڈالے، اتنے ہی گھائل کر دئیے۔ اب صدر پیوٹن کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ بدلہ کس سے لے۔ افغانستان پر حملہ کرے یا یوکرائن پر حملے بڑھا دے۔
داعش خراسان افغانستان کے ایک صوبے کنٹر تک محدود ہے اور دراصل یہ کوئی داعش واعش ہے ہی نہیں، ٹی ٹی پی کا ایک گروپ ہے اور ٹی ٹی پی ہے تحریک طالبان افغانستان کا ایک بہروپ۔ روس افغانستان پر کیا حملہ کرے گا، وہ تو یوکرائن کے ہاتھوں پہلے ہی نیم جان ہے۔
داعش کے بارے میں عمومی اتفاق رائے ہے کہ اسے امریکہ نے بنایا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اسے امریکہ نے نہیں بنایا لیکن اس نے کام سارے وہی کئے جو امریکہ کے فائدے میں تھے۔ داعش کی آڑ لے کر امریکہ نے شام میں عوام کو کچل ڈالا، روس اور ایران سے مل کر۔ وہاں انقلاب آ چلا تھا جس کی قیادت اخوان المسلمون کے لوگ کر رہے تھے۔ یہ انقلاب اسرائیل کی موت ہوتا۔
طالبان کس نے بنائے؟۔ ظاہر ہے، یہ ہمارا ہی کام تھا۔ اب وہ بھارت کے آلہ کار بن گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں بنایا بھی بھارت نے تھا۔ یاد آیا۔ ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے کے ’’سپریم کمانڈر‘‘ ملا ہیبت اللہ کا ٹویٹ آیا ہے جس میں انہوں نے عورتوں کو سنگسار کرنے کی پالیسی جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔
تحریکِ طالبان افغانستان کی شریعت عورتوں کو کوڑے مارسے شروع ہوئی، عورتوں کو سنگسار کرنے پر ختم ہوتی ہے۔ واللہ، کیا شہکار ہے ’’اپنے‘‘ ہنر کا۔

ترکیہ کے سفیر ڈاکٹر مہمت پکاسی کی وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات

QOSHE - غالب کا لافانی، لاثانی شعر - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

غالب کا لافانی، لاثانی شعر

16 1
27.03.2024

کچھ ہفتے پہلے کی بات ہے، پی ٹی آئی کے ادارے گیلپ نے ایک سروے تخلیق کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ پڑھے لکھے افراد یعنی نوجوانوں کی بھاری اکثریت پی ٹی آئی میں ہے۔ سروے کی دلچسپ بات یہ تھی کہ اس میں موازنہ نوجوانوں کو پڑھے لکھے اور بڑی عمر کے لوگوں کو ان پڑھ قرار دے کر کیا گیا تھا۔ کسی ستم ظریف نے لکھا، تمام بڑی عمر کے لوگ پی ٹی آئی کے اس گیلپ نامی ادارے کے خیال میں ان پڑھ ہیں تو نوجوان کی حد کیا ہے یعنی کس عمر کے لوگ نوجوان بمعنی پڑھے لکھے قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ہم مان لیں کہ 30 سال کی عمر نوجوانی کی آخری حد ہے تو گیلپ کے ’’سربراہ‘‘ عمران خان کی عمر کیا ہو گی؟۔ غالب گمان یہ ہے کہ 30 سال سے کچھ زیادہ نہیں ہو گی۔
____
مذاق اپنی جگہ لیکن بات جو گیلپ نے دریافت کی ، وہ درست تھی۔ نہ صرف پڑھے لکھے بلکہ محقق اور ریسرچ کالرز کی جتنی بڑی تعداد پی ٹی آئی میں ہے، اتنی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما بلکہ جزائر انڈیمان میں بھی کسی اور جماعت میں نہیں ہو گی۔
یہاں محض ایک ریسرچ سکالر کا ذکر مقصود ہے جس نے پنجاب اسمبلی میں اپنی ریسرچ کا نمونہ پیش کر کے ادبیات و تنقیدات اور تنقیحات کی دنیا میں تہلکہ برپا کر دیا۔ انہوں نے مرزا غالب کا ایک شعر اپنے کسی موقف کے حق میں پیش کیا۔ شعر حرف بحرف ان کی ’’وڈیو‘‘ کے مطابق یوں ہے
اپنے ہی قدموں پر کھڑا ہوتے لوگ اے مرزا غالب
دوسروں کے کندھے پر تو جنازہ آتا ہے۔
مرزا غالب کو لوگ یونہی استاد نہیں کہتے۔........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play