مانسہرے کے جلسے میں وہی پرانے نواز شریف نظر آئے۔ صحت مند، تگڑے ، عوام کی تال سے تال ملانے والے اور جلسہ بھی بہت بڑا تھا، لیگیوں کے دعوے کے مطابق یہاں اب تک ہونے والا سب سے بڑا جلسہ۔ خیر، پرانے ریکارڈ کون دیکھتا ہے: البتہ اس موقع پر الیکشن ملتوی کرانے کی مہم کے قائد ایک بڑے میڈیا پرسن کی یاد آ گئی۔ موصو ف کا شو بہت زیادہ دیکھا جاتا ہے اور وہ آج کل اس قسم کے دلائل کا ڈھیر لگا رہے ہیں کہ چونکہ ایران نے پنجگور پر حملہ کر دیا ہے اس لئے الیکشن ملتوی کئے جائیں، چونکہ یورپی یونین نے غزہ کے مسئلے پر اجلاس بلایا ہے، اس لئے الیکشن ملتوی کئے جائیں اور چونکہ ڈالر کے نرخ مزید گر گئے ہیں اس لئے الیکشن ملتوی کر دئیے جائیں۔ موصوف پی ٹی آئی کے وکیل اور ترجمان بنے ہوئے ہیں، ایک سانس میں پی ٹی آئی کی مقبولیت 66 ،68 فیصد بتاتے ہیں، دوسری سانس میں الیکشن ملتوی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ان کی یاد یوں آئی کہ پچھلے ہفتے وزیر آباد میں نواز شریف کا جلسہ تھا۔ جلسہ گاہ مکمل بھری ہوئی تھی لیکن ان میڈیا پرسن صاحب نے کہا کہ جلسہ گاہ میں حاضرین کی تعداد متاثر کن نہیں تھی۔ حاضرین کی کتنی تعداد ہوتی جو صاحب کیلئے متاثر کن کے پیمانے پر پورا اترتی؟۔ یہ بات تو میڈیا پرسن نے نہیں بتائی لیکن اور صاحب نے سول میڈیا پر دو تصویریں دکھا کر بتا دی۔ ایک تصویر سال گزشتہ عمران خان کے جلسے کی تھی جو اسی جلسہ گاہ میں ہوا اور جس میں دونوں اطراف سے جگہ خالی تھی اور یہ وہ جلسہ تھا جسے میڈیا پرسن نے متاثر کن سے بھی بڑھ کر قرار دیا تھا۔ دوسری تصویر نواز شریف کے حالیہ جلسے کی تھی جس میں جلسہ گاہ کی دونوں اطراف بھی کھچا کھچ کے حساب سے بھری ہوئی تھی۔
معلوم ہوا کہ جلسہ اطراف سے خالی یا کھدرا ہو تو متاثرکن ہوتا ہے، دونوں طرف سے بھرا ہوا اور ’’گنجان آباد‘‘ ہو تو غیر متاثر کن۔ اتفاق سے ان میڈیا پرسن کے نام کے بعد بھی خان لگتا ہے۔
_____
مانسہرے کے اس جلسے سے، چلئے، اس افواہ کی تردید تو ہو گئی کہ نواز شریف بیمار ہیں، لمبی تقریر بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ ’’افواہ‘‘ اپنی جگہ برقرار ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور خطرہ صرف انہی کو نہیں، ان سمیت /21 افراد کو ہے اور ان سبھی کو یہ خطرہ ٹی ٹی پی سے ہے۔ وہی ٹی ٹی پی جو بعض مبصرین کے مطابق حقیقی آزادی کیلئے لڑنے والی ایک سیاسی جماعت کا ’’ملٹری ونگ‘‘ ہے یعنی انصاف بزور شمشیر۔
سوال یہ ہے کہ یہ بازوئے شمشیر زن اور مذکورہ بالا میڈیا پرسن دونوں ایک ہی مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟۔ یہ کہ الیکشن ملتوی کرو۔
بازوئے شمشیر زن یہ مطالبہ زبان حال (یعنی بارود) سے اور میڈیا پرسن صاحب زبان قال سے کر رہے ہیں۔
بظاہر ہر دو حضرات کے مطالبے کو پذیرائی ملتی نظر نہیں آتی یعنی الیکشن ملتوی ہونے کے ذرا بھی آثار نہیں۔ اب تو باقی دن ہی کتنے رہ گئے، بس دو ہفتے۔
_____
66 اور 68 فیصد مقبولیت کے دعوے کو اگرچہ ان میڈیا پرسن کی اپنی پارٹی کے ایک دوسرے ترجمان نے سوشل میڈیا پر ڈالی گئی پوسٹ میں مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ جی نہیں، 66 نہ 68 ، ہماری مقبولیت تو 98 فیصد ہے۔
98 فیصد یعنی باقی تمام جماعتوں کی ملا کر دو فیصد۔ لگتا ہے الیکشن ملتوی کرانے کی مہم کا مقصد یہ دو فیصد کا رہا سہا فرق بھی مٹانا ہے۔ یعنی الیکشن دو چار مہینے آگے چلے جائیں تو پی ٹی آئی کی مقبولیت سو فیصد ہو جائے گی اور کیا پتہ ایک سو بیس فیصد ہو جائے؟
_____
ہمارے گریٹ خان جو نظام شمسی کے مقبول ترین لیڈر ہیں، ان گنت قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور ان گنت صلاحیتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ ہر موقع اور محل کی مناسبت سے استعمال کرنے کیلئے ان کے پاس ان گنت ماسٹر اور ٹرمپ کارڈ موجود ہیں۔ ڈیڑھ پونے دو سال بلکہ دراصل 19 مہینوں میں وہ 119 ماسٹر اور ٹرمپ کارڈ استعمال کر چکے ہیں اور ہر کارڈ کے استعمال کے بعد حالات مزید ان کے حق میں چلے جاتے ہیں، ہر کارڈ کے استعمال سے پانسہ پلٹ جاتا ہے اور ہر کارڈ کے استعمال سے فضا ہی بدل جاتی ہے۔
گزشتہ روز انہوں نے اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران ایک اور ٹرمپ کارڈ کا استعمال کیا۔ اس کارڈ کا نام ’’تم‘‘ کارڈ تھا۔
جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے انہیں عرض کی، سر، آپ یہاں پریس کانفرنس نہیں کر سکتے، یہ جیل ہے…گریٹ خان نے فوراً ہی تم کارڈ نکال لیا اور ترنت کہا ’’تم ہوتے کون ہو یہ…‘‘
دوسرا میری درخواست ہے کہ آپ پر بس…،
’’تو تڑاک، تو تڑاک‘‘
’’سر عرض سن لیں‘‘
’’تو تڑاک تو تڑاک‘‘
تو تڑاک کے مسلسل تڑاکے سن کر ڈی آئی جی جیل خانہ بھی اندر آ گئے۔ گریٹ خان نے ان پر بھی ’’تم کارڈ‘‘ چلا دیا اور چلاتے چلے گئے۔ ڈی آئی جی کچھ دیر تک تو سر آپ، سر آپ کرتے رہے، پھر نہ جانے کیا ہوا، انہوں نے بھی ’’تم کارڈ‘‘ استعمال کر ڈالا۔ افواہ تو اس سے آگے کی بھی ہے، خیر، اس کے بعد چراغوں میں روشنی مدّھم پڑ گئی اور بعدازاں گریٹ خان کی ہمشیرہ محترمہ باہر آ کر فریاد کناں ہوئیں کہ جیل حکام نے گریٹ خان سے بدتمیزی کی ہے۔ تاحال کی اطلاع یہ ہے کہ اڈیالہ کے اندر چراغوں میں روشنی بدستور مدّھم ہے بلکہ بجھی بجھی سی ہے۔
بہرحال کہا جا سکتا ہے کہ اس بار بھی، حسب سابق، حسب معمول، حسب توقع اور حسب اندیشہ، ٹرمپ کارڈ کے استعمال کے بعد حالات مزید خان کے حق میں ہو گئے ہیں، انہوں نے پانسہ پلٹ ڈالا ہے فضا بدل کے رکھ دی ہے اور ہوائوں کا رخ مزید ان کی طرف ہو گیا ہے۔
_____
اس دوران یعنی دریں اثنا اڈیالے کے اندر سے گریٹ خان کی بے مثالی دلیری اور بہادری کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ جیل کے ہر اہلکار پر وہ کسی بے خوف شیر کی طرح لپک اور نڈر شہباز کی طرح جھپٹ پڑے ہیں، اہلکار کو دم دبا کر بھاگتے ہی بنتی ہے۔ جیل کا تمام عملہ مان گیا ہے کہ ایسا بہادر اور جی دار قیدی آج تک ، کم سے کم، اس جیل میں نہیں آیا۔ اور تو اور انہوں نے باورچی کی بھی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ ڈانٹ کر فرماتے ہیں تم نے اس کھانے میں زہر ملا دیا ہے، مجھے مارنا چاہتے ہو، پہلے خود کھا کر دکھا?، میں اس کے بعد ہی کھا لوں گا۔ باورچی کھا کر دکھانے لگا تو خان کھانا چھین اور گھونسہ تان کر اس کی طرف بڑھے۔ بزدل باورچی چیخیں مارتا ہوا بھاگا۔

مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ میں زائرین کو ماسک کی پابندی کی ہدایت

QOSHE - بہادر خاں کا ایک اور کارڈ، تم کارڈ۔ - عبداللہ طارق سہیل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

بہادر خاں کا ایک اور کارڈ، تم کارڈ۔

12 0
24.01.2024

مانسہرے کے جلسے میں وہی پرانے نواز شریف نظر آئے۔ صحت مند، تگڑے ، عوام کی تال سے تال ملانے والے اور جلسہ بھی بہت بڑا تھا، لیگیوں کے دعوے کے مطابق یہاں اب تک ہونے والا سب سے بڑا جلسہ۔ خیر، پرانے ریکارڈ کون دیکھتا ہے: البتہ اس موقع پر الیکشن ملتوی کرانے کی مہم کے قائد ایک بڑے میڈیا پرسن کی یاد آ گئی۔ موصو ف کا شو بہت زیادہ دیکھا جاتا ہے اور وہ آج کل اس قسم کے دلائل کا ڈھیر لگا رہے ہیں کہ چونکہ ایران نے پنجگور پر حملہ کر دیا ہے اس لئے الیکشن ملتوی کئے جائیں، چونکہ یورپی یونین نے غزہ کے مسئلے پر اجلاس بلایا ہے، اس لئے الیکشن ملتوی کئے جائیں اور چونکہ ڈالر کے نرخ مزید گر گئے ہیں اس لئے الیکشن ملتوی کر دئیے جائیں۔ موصوف پی ٹی آئی کے وکیل اور ترجمان بنے ہوئے ہیں، ایک سانس میں پی ٹی آئی کی مقبولیت 66 ،68 فیصد بتاتے ہیں، دوسری سانس میں الیکشن ملتوی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ان کی یاد یوں آئی کہ پچھلے ہفتے وزیر آباد میں نواز شریف کا جلسہ تھا۔ جلسہ گاہ مکمل بھری ہوئی تھی لیکن ان میڈیا پرسن صاحب نے کہا کہ جلسہ گاہ میں حاضرین کی تعداد متاثر کن نہیں تھی۔ حاضرین کی کتنی تعداد ہوتی جو صاحب کیلئے متاثر کن کے پیمانے پر پورا اترتی؟۔ یہ بات تو میڈیا پرسن نے نہیں بتائی لیکن اور صاحب نے سول میڈیا پر دو تصویریں دکھا کر بتا دی۔ ایک تصویر سال گزشتہ عمران خان کے جلسے کی تھی جو اسی جلسہ گاہ میں ہوا اور جس میں دونوں اطراف سے جگہ خالی تھی اور یہ وہ جلسہ تھا جسے میڈیا پرسن نے متاثر کن سے بھی بڑھ........

© Nawa-i-Waqt


Get it on Google Play