انہوں نے روتے ہوئے مذمت کی۔
امریکی ’’قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کوئی جان کربی صاحب ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ امریکہ کو ایسا کوئی ثبوت، شہادت یا علامت نہیں ملی جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ اسرائیل نے غزہ میں کوئی نسل کشی کی ہے۔ انہوں نے نسل کشی کے الزامات کو جھوٹ قرار دیا۔ غزہ میں 30 ہزار فلسطینی شہید کر دئیے گئے، 80 ہزار زخمی ہیں اور آٹھ سے دس ہزار اب بھی ملبے کے ڈھیر تلے پڑے ہیں، زندہ کہاں ہوں گے، وہ بھی مر کھپ چکے ہوں گے لیکن امریکہ کہتا ہے کہ کوئی نسل کشی سرے سے ہوئی ہی نہیں۔
امریکہ کے نزدیک نسل کشی کا پیمانہ ہولوکاسٹ کی تعداد کے برابر ہے۔ یعنی جب 60 لاکھ فلسطینی شہید ہو جائیں گے تو اس سے زیادہ جو بھی شہید ہوں گے، انہیں نسل کشی کے زمرے میں ڈالا جاسکے گا۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ غزہ میں کل 20 لاکھ فلسطینی ہیں۔ سب کے سب مار دئیے جائیں تب بھی 40 لاکھ کی کمی رہ جائے گی۔ اس کے بعد مغربی کنارے والے 20 لاکھ مار دئیے جائیں تو بھی 20 لاکھ کم پڑ جائیں گے۔ یعنی فلسطینی نسل پوری کی پوری ناپید کر دی جائے، نسل کشی کا الزام اسرائیل پر تب بھی عائد نہیں کیا جا سکے گا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ تین طاقتور عرب ملک اسرائیل سے مسلسل یہ درخواست کئے جا رہے ہیں کہ مار دو، ایک ایک فلسطینی کو مار دو، ایک بھی زندہ بچنے نہ پائے، کون سا تم پر نسل کشی کا الزام لگ جانا ہے۔
______
کربی والی بات اسرائیلی صدر بھی کر چکا، اس نے کہا ہم پر نسل کشی کا........
© Nawa-i-Waqt
visit website