[email protected]

کیا 18 ویں ترمیم واقعی رول بیک کی جا رہی ہے؟ کیا سینیٹر رضا ربانی کے اس الزام میں کوئی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کو دی گئی خود مختاری کے خاتمے پر تل چکی ہے؟ استاد محترم مرحوم و مغفور پروفیسر سید متین الرحمن مرتضی یاد آ گئے۔

یہ واقعہ کراچی یونیورسٹی کا ہے۔ خبر اڑی کہ ایک گروہ جامعہ میں متحرک ہے جو طالبات پر تیزاب پھینکتا ہے اور ان کے بے بسی کا تماشا دیکھتا ہے۔

جذبات آسمان پر پہنچ گئے۔ اس سے قبل کہ جامعہ شعلوں سے بھڑک اٹھتی، استاد محترم بروئے کار آئے اور فرمایا کہ مکرر یہ اطلاع بڑی تشویش ناک ہے جس پر ردعمل ضروری ہے تاکہ مجرموں کی بیخ کنی ہو سکے لیکن احتجاج سے پہلے بھی ایک کام ضروری ہے۔

’اس سے ضروری کام اور کیا ہو سکتا ہے جو ہم کرنے جا رہے ہیں۔‘استاد محترم کی مداخلت پر ہم نے سوچا لیکن ان کے احترام میں خاموش رہے۔ اپنے طلبا کو متوجہ پا کر انھوں نے چند سوالات اٹھائے:

1-پہلے یہ تعین ضروری ہے کہ تیزاب گردی کا واقعہ کہاں رونما ہوا۔

2-کیا کوئی ایسی بچی آپ کے علم میں ہے جو اس قسم کے حملے کا نشانہ بنی ہو؟

ان کی گفتگو میں ممکن ہے کہ چند نکات مزید بھی رہے ہوں لیکن ان میں یہی دو باتیں اہم ترین تھیں۔ ان کے اٹھائے ہوئے سوالات نے جامعہ میں ایک بدترین ہنگامے اور تباہی کا راستہ نہ صرف یہ کہ روک دیا بلکہ ان کے شاگردوں میں منطقی انداز میں سوچنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو گئی۔

پاکستان کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو اس میں بھی ہمیں ایسے کئی بزرگ ملتے ہیں جنھوں نے شدید ترین جذباتی مواقع پر اپنے اوسان بحال رکھ کر ملک کو یقینی نقصان سے بچا لیا۔

تاریخ سے ناتا چھڑا نہ لیا جائے تو ہم بہ آسانی جان سکتے ہیں کہ نظام اسلام پارٹی کے سربراہ اور پاکستان کو پہلا آئین دینے والے چوہدری محمد علی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، میر غوث بخش بزنجو اور خود ہمارے عہد تک نواب زادہ نصراللہ خان جیسی شخصیات کا شمار ایسے لوگوں میں ہی ہوتا تھا جو جذبات کی آندھی کا شکار ہوجانے کے بہ جائے فہم و فراست سے کام لے کر تخریب کو تعمیر میں بدل دیا کرتے تھے۔

یہ زمانہ پوسٹ ٹرتھ کا ہے۔ 2016 میں آکسفورڈ ڈکشنری میں جگہ پانے والی اس ترکیب کی تعریف دل چسپ ہے۔ لکھا ہے:’ پوسٹ ٹرتھ سے مراد آج کل لوگوں کا یہ رجحان ہے کہ وہ حقائق اور دلائل کو پس پشت ڈال کر وقتی ہیجان میں جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، کچھ قوتیں اس جذباتیت کو استعمال کرتی ہیں ۔

یعنی سچ ابھی جوتے ہی پہن رہا ہوتا ہے اور جھوٹ آدھی دنیا کا چکر لگا کر واپس آجاتا ہے۔ آزاد دائر المعارف نے یہ تعریف بیان کرتے ہوئے پروین شاکر مرحومہ کا یہ شعر درج کر کے نہ صرف یہ کہ اس تعریف میں دل چسپی پیدا کر دی ہے بلکہ اسے حسب حال بھی بنا دیا ہے:

میں سچ کہوں گی اور ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا

پاکستان کا قومی سیاسی منظر نامہ اس تعریف اور اس شعر کی بہترین لفظی تصویر پیش کرتا ہے جہاں ایک شخص نے 2014 تا 2022 لفظوں کے توتا مینا اڑائے اور اس ملک کی سیاست، معیشت، خارجہ تعلقات اور تہذیب کا جنازہ نکال دیا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ اب بھی کچھ لوگ حقیقت سے غافل ہو کر اسی کذب بیانی پر اعتبار کرتے ہیں اور اپنے اور اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ قومی امور کے باب میں پی ٹی آئی نے جو روش اختیار کی تھی، اب اس میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور پیپلز پارٹی بھی اسی راہ پر چل نکلی ہے۔

18ویں ترمیم کے سلسلے میں مصرع طرح بلاول بھٹو زرداری صاحب نے اٹھایا تھا لیکن سینیٹر رضا ربانی نے اس پر غزلے دو غزلے کہنے شروع کر دیے ہیں۔ فرمانا ان کا یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن 18 ویں ترمیم کے درپے ہے اور وہ اس کا خاتمہ کر کے صوبائی خود مختاری کی بساط لپیٹ دینا چاہتی ہے۔

سینٹر رضا ربانی نے ایسی بات کیوں کہی، اس کا تازہ پس منظر تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے بلدیات کو مزید مالی اور انتظامی اختیارات دینے پر زور دیا ہے اور اس سلسلے میں آئینی ترمیم کا ایک مسودہ مسلم لیگ ن کو پیش کیا ہے جس سے اتفاق کر لیا گیا ہے۔

کیا بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنانے سے اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پوسٹ ٹرتھ کی روایت تو کاتا اور لے دوڑی ہے۔ بات کہاں سے آئی، کیوں آئی، کچھ وزن اس میں ہے کہ نہیں، اس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں، بس سنئے اور آگے بڑھا دیجیے جیسے ان دنوں بعض صحافی اور خاص طور پر کچھ اینکر صاحبان کر رہے ہیں۔

اس طوفان میں مسلم لیگ ن کی سینٹرل کمیٹی اور منشور کمیٹی کے رکن ناصر الدین محمود بروئے کار آئے ہیں اور انھوں نے سینٹر رضا ربانی کے الزام کی حقیقت واضح کی ہے۔ناصر کہتے ہیں کہ رضا ربانی صاحب نے بلدیات کو اختیارات دینے کے معاملے کو 18 ویں ترمیم سے جوڑ کر انصاف سے کام نہیں لیا بلکہ وہ حقائق کو مسخ کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے 1993 تا 1996 تک اپنی حکومت کے دوران میں نئے سماجی معاہدے ( New Social Contact) کا تصور پیش کیا تھا اور اس مقصد کے لیے سندھ کے سابق گورنر بیرسٹر کمال اظفر کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی جس کا مقصد ہی یہی تھا کہ اختیارات صوبائی سطح سے بھی نچلی سطح پر پہنچا دیے جائیں تا کہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کیے جا سکیں۔

آیندہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں مسلم لیگ ن اگر بلدیات کو مضبوط بنانے کا عزم رکھتی ہے تو اس کا پس منظر یہ ہے نہ کہ 18 ویں ترمیم کا خاتمہ ہے۔

18 ویں ترمیم کیا تھی اور بلدیات کو مضبوط بنانا کیا ہے؟ یہ کچھ ایسا مشکل سوال نہیں۔ 18 ترمیم کا جواز ہی اس کی ضرورت کو سمجھنے میں معاونت کرتا ہے۔ اس ترمیم کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی تھی کہ مرکز کے مقابلے میں صوبے بہت سے معاملات میں بے بسی محسوس کرتے تھے لہٰذا اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کو با اختیار بنا دیا گیا۔

اب وہی مشکل صوبائی حکومت کے مقابلے میں ضلعی حکومتیں محسوس کرتی ہیں۔ مجوزہ ترمیم کے ذریعے ضلعی حکومتوں کے اختیارات کو ضمانت دینی ہے۔ ایسا کرنے سے 18 ویں ترمیم میں حاصل اختیارات تو جوں کے توں رہیں گے البتہ بے نظیر بھٹو کے نیو سوشل کنٹریکٹ والے تصور کے مطابق اختیارات نچلی سطح پر بھی منتقل ہو جائیں گے۔ اتنی سی بات تھی جسے فسانہ بنایا جا رہا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری اور رضا ربانی ایسا کیوں کر رہے ہیں، صاف بات ہے کہ اس کا سبب وہ مایوسی ہے جو ممکنہ انتخابی نتائج کی صورت میں انھیں دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب، بلوچستان اور کے پی میں اس جماعت کو ابھی سے مایوسی کا سامنا ہے جب کہ اس بار سندھ میں بھی بھرپور مقابلہ دکھائی دیتا ہے۔ اس صورت حال نے ان قائدین کو پریشان کر دیا ہے اور مایوسی کے عالم میں وہ پی ٹی آئی کے راستے پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔

18 وی ترمیم کو مبینہ طور پر لاحق خدشات کی ایک حقیقت تو یہ ہے لیکن بہتر ہو کہ اس موقع پر ایک اور غلط فہمی کا ازالہ بھی ہو جائے۔ پیپلز پارٹی اور سینیٹر رضا ربانی 18 ویں ترمیم کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ ایک اعتبار سے یہ دعویٰ درست بھی ہے کہ یہ ترمیم اسی جماعت کے دور حکومت میں منظور ہوئی لیکن کیا اس زمانے میں پیپلز پارٹی دو تہائی اکثریت رکھتی تھی کہ وہ تنہا یہ ترمیم منظور کرا پاتی؟

حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس زمانے میں بہ مشکل سادہ اکثریت رکھتی تھی جس کے بل بوتے پر آئینی ترمیم کی منظوری کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ اس خواب کی تکمیل پاکستان مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔ ایک حقیقت تو اس سلسلے میں یہ ہے ۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ اس ترمیم کی تیاری کے سلسلے میں جو پارلیمانی کمیٹی بنی تھی، اس میں مسلم لیگ ن کی طرف سے دیگر اہم ارکان کے علاوہ احسن اقبال بھی شامل تھے پھر جن لوگوں نے 18 ویں ترمیم کا مسودہ تحریر کیا، ان بھی بھی احسن اقبال شامل تھے لیکن لطیفہ یہ ہے کہ ایک اجتماعی قومی کارنامے کا کریڈٹ تنہا پیپلز پارٹی اور رضا ربانی لینا چاہتے ہیں۔

ناصر الدین محمود ہمارے شکریے کے مستحق ہیں، پوسٹ ٹرتھ عہد میں بھی جن کے اوسان سلامت رہتے ہیں اور وہ بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ریکارڈ درست کر دیتے ہیں۔

QOSHE - 18 ویں ترمیم کا واویلا - ڈاکٹر فاروق عادل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

18 ویں ترمیم کا واویلا

11 0
11.12.2023

[email protected]

کیا 18 ویں ترمیم واقعی رول بیک کی جا رہی ہے؟ کیا سینیٹر رضا ربانی کے اس الزام میں کوئی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کو دی گئی خود مختاری کے خاتمے پر تل چکی ہے؟ استاد محترم مرحوم و مغفور پروفیسر سید متین الرحمن مرتضی یاد آ گئے۔

یہ واقعہ کراچی یونیورسٹی کا ہے۔ خبر اڑی کہ ایک گروہ جامعہ میں متحرک ہے جو طالبات پر تیزاب پھینکتا ہے اور ان کے بے بسی کا تماشا دیکھتا ہے۔

جذبات آسمان پر پہنچ گئے۔ اس سے قبل کہ جامعہ شعلوں سے بھڑک اٹھتی، استاد محترم بروئے کار آئے اور فرمایا کہ مکرر یہ اطلاع بڑی تشویش ناک ہے جس پر ردعمل ضروری ہے تاکہ مجرموں کی بیخ کنی ہو سکے لیکن احتجاج سے پہلے بھی ایک کام ضروری ہے۔

’اس سے ضروری کام اور کیا ہو سکتا ہے جو ہم کرنے جا رہے ہیں۔‘استاد محترم کی مداخلت پر ہم نے سوچا لیکن ان کے احترام میں خاموش رہے۔ اپنے طلبا کو متوجہ پا کر انھوں نے چند سوالات اٹھائے:

1-پہلے یہ تعین ضروری ہے کہ تیزاب گردی کا واقعہ کہاں رونما ہوا۔

2-کیا کوئی ایسی بچی آپ کے علم میں ہے جو اس قسم کے حملے کا نشانہ بنی ہو؟

ان کی گفتگو میں ممکن ہے کہ چند نکات مزید بھی رہے ہوں لیکن ان میں یہی دو باتیں اہم ترین تھیں۔ ان کے اٹھائے ہوئے سوالات نے جامعہ میں ایک بدترین ہنگامے اور تباہی کا راستہ نہ صرف یہ کہ روک دیا بلکہ ان کے شاگردوں میں منطقی انداز میں سوچنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو گئی۔

پاکستان کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو اس میں بھی ہمیں ایسے کئی بزرگ ملتے ہیں جنھوں نے شدید ترین جذباتی مواقع پر اپنے اوسان بحال رکھ کر ملک کو یقینی نقصان سے بچا لیا۔

تاریخ سے ناتا چھڑا نہ لیا جائے تو ہم بہ آسانی جان سکتے ہیں کہ نظام اسلام پارٹی کے سربراہ اور پاکستان کو پہلا آئین دینے والے چوہدری محمد علی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، میر غوث بخش بزنجو اور خود ہمارے عہد تک نواب زادہ نصراللہ خان جیسی شخصیات کا شمار ایسے لوگوں میں ہی ہوتا........

© Express News


Get it on Google Play