[email protected]

پاکستان میں انتخابی نظام کی تاریخ متنازعہ چلی آرہی ہے ۔ہر بار انتخابی نتائج پر مختلف نوعیت کے تحفظات یا سوالات موجود رہتے ہیں۔ جو جماعت جیت جاتی ہے، اس کے لیے الیکشن شفاف،جو جماعت ہار جاتی ہے، وہ دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔

دوئم یہاں انتخابات سے قبل ہی دھاندلی کی باتیں شروع کردی جاتی ہیں ۔ہماری تاریخ میں کوئی بھی ایسا الیکشن نہیں جس پر دھاندلی کے الزامات نہ لگے ہوں۔

8فروری 2024کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھانا شروع کردیے تھے بلکہ اس نے انتخابات رکوانے کی بھی پوری کوشش کی تھی ، الیکشن کمیشن نے بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ ماضی کی غلطیاںکسی صورت دوبارہ نہیں دہرائی جائیں گی ۔لیکن 2024کے انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات لگے اور جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

انتخابات کی شفافیت کو جانچنے کے لیے ہم دو حصوں میں بات کو سمجھ سکتے ہیں ۔ پہلی بات پری پول یعنی انتخابات سے پہلے کے معاملات ، انتخابات کے دن کے معاملات اور پھر انتخابات کے بعد کے معاملات کو دیکھنا ہوگا۔ دوسرا نقطہ لیول پلینگ فیلڈ یا سب جماعتوں یا فریقین کے لیے سازگار او ریکساں ماحول کو یقینی بنانا ہوتا ہے ۔ یہ ذمے داری الیکشن کمیشن ، وفاقی اور صوبائی نگران حکومتوں کی ہوتی ہے ۔

پری پول ریگنگ کا مطلب الیکشن سے قبل ایسے اقدامات کرنا جو کسی ایک جماعت یا جماعتوں کو فائدہ پہنچائے ، اس کے لیے پری پول ریگنگ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ایک جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے سیاسی مخالفین پر مقدمے قائم کرنا، انھیں نااہل کرانا،اسی زمرے میں آتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک خاص حکمت عملی او رمنصوبہ بندی کے تحت کیا جاتاہے ۔ پی ٹی آئی یہی الزام لگا رہی کہ انتخابات میں انھیں لیول پلینگ فیلڈ نہیں دی گئی، انھیں انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی اور انتخابی نتائج کو تبدیل کیا گیا ہے ۔ جے یو آئی، جی ڈی اے اور جماعت اسلامی بھی ایسے ہی الزامات لگا رہی ہیں۔

یہ ابہام اس لیے پیدا ہوا الیکشن مینجمنٹ سسٹم رات گیارہ بجے سے صبح 7بجے تک کام کرنے سے قاصر رہا ۔ میڈیا و الیکشن کمیشن کے نتائج میں واضح فرق نظر آیا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے آزاد یعنی پی ٹی آئی کے امیدواروں نے الزامات لگائے کہ وہ شام تک جیتے ہوئے جب کہ صبح انتخاب ہار چکے تھے۔ الیکشن ایکٹ کے تحت 14دن میں فارم 45کو وہ کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے ، لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور جب پانچ مارچ کو اپ لوڈ کیاگیا تو اس میں مختلف جگہوں پر اعداد وشمار میں غلطیاں سامنے آئیں ۔

فارم 45,46,,47,48,49میں فرق نظر آیا جب کہ انتخابی نتائج کو حتمی شکل دینے کے لیے فارم 45کنجی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کو نظرانداز کرکے فارم 47پر نتیجہ دینا شفافیت کے سوالات کو جنم دیتا ہے ۔اس وقت مجموعی طور پر پی ٹی آئی ، عوامی نیشنل پارٹی ، جے یو آئی ، جماعت اسلامی ، سردار اختر مینگل، محمود خان اچکزئی سمیت کئی جماعتیں انتخابات کے نتائج کو چیلنج کررہی ہیں۔

فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک فافن اور پلڈاٹ نے بھی الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ عالمی میڈیا مسلسل سوالات اٹھاکر اسے چیلنج کررہے ہیں ۔کراچی کے انتخابات پر بھی سوالات سامنے آئے ہیں ۔یہ سارا عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا انتخابی نظام تاحال کمزور ہے اور اس میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے ۔

ماضی میں پاکستان میں ہمیشہ سے انتخابی اصلاحات اور انتخابی شفافیت پر بہت زیادہ زور دیا جاتا رہا ہے ۔ 2014میں پی ٹی آئی کے انتخابی دھاندلی پر دھرنے کے نتیجے میں35رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی او راس نے بھی انتخابی اصلاحات کا ایک جامع پیکیج دیا ہے او راس کے بعد انتخابی دھاندلی پر بننے والے عدالتی کمیشن نے بھی 42کے قریب ایسی تجاویز پیش کیں اور الیکشن کمیشن کو پابند کیا کہ وہ ان تجاویز کی روشنی میں اصلاحات کو یقینی بنائے تاکہ انتخابی دھاندلی او ربے ضابطگیوں کو ہر ممکن طو رپر روکا جاسکے ۔ اسی طرح پلڈاٹ سمیت کئی اداروں کی اپنی انتخابی تجاویز بھی سامنے آئیں مگر ان تجاویز پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا۔

ہمارا نظام عدم استحکام اور عدم شفافیت کا شکار رہا ہے ۔ نگران حکومتوں کا تجربہ بھی اپنی افادیت کھوچکا ہے اورہم کو اب نگران حکومتوں کے کھیل سے باہر نکلنا ہوگا ۔ انڈیا میں جو حکومت پانچ سال کے منتخب ہوتی، وہی نگران حکومت کا درجہ حاصل کرلیتی ہے اور سارا نظام الیکشن کمیشن کے زیر کنٹرول چلاجاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم نگران حکومتوں کے کھیل سے باہر نکلیں او رپہلے سے موجود حکومت کی موجودگی میں الیکشن کمیشن کو زیادہ خود مختاری اور اختیارات دیں تاکہ ان ہی کی نگرانی میں شفاف انتخابات کے عمل کو ممکن بنایا جاسکے۔

2024کے انتخابات میں جہاں الیکشن کمیشن کی ناکامی کا سامنا ہمیں کرنا پڑا ہے وہیں نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی ناکام رہی ہیں ۔ اب ان ہی نگران حکومتوں سے جڑے اہم عہدے دار نئی حکومت کی مدد سے اقتدار میں خود کو حصہ دار بنانے کی کوششو ں میں مگن ہیں ۔ ایسے لگتا ہے کہ ان کے کردار کی بنیاد پر ان کے لیے تحفہ میں اقتدار دیا جارہا ہے ۔ انتخابات کے اس سارے کھیل میں ہمارا مجموعی سیاسی، جمہوری، انتخابی، آئینی اورقانونی نظام بری طریقے سے متاثر ہوا ہے او ریہ عمل ہمیں کسی بھی طور پر سیاسی استحکام کی طرف نہیں لے کر جاسکے گا۔

ہم پہلے سے زیادہ سیاسی تقسیم اور سیاسی انتشار کا شکار ہوئے ہیں اور جیسے جیسے یہ سیاسی نظام آگے بڑھے گا ہمیں پارلیمنٹ یا پارلیمنٹ سے باہر کی سیاست میں تلخیاں زیادہ دیکھنے کو ملیں گی ۔ان انتخابات نے ہمیں سیاسی طور پر جوڑنے کے بجائے مزید الجھا دیا ہے ۔

QOSHE - انتخابی دھاندلی کا مقدمہ - سلمان عابد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

انتخابی دھاندلی کا مقدمہ

11 0
10.03.2024

[email protected]

پاکستان میں انتخابی نظام کی تاریخ متنازعہ چلی آرہی ہے ۔ہر بار انتخابی نتائج پر مختلف نوعیت کے تحفظات یا سوالات موجود رہتے ہیں۔ جو جماعت جیت جاتی ہے، اس کے لیے الیکشن شفاف،جو جماعت ہار جاتی ہے، وہ دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔

دوئم یہاں انتخابات سے قبل ہی دھاندلی کی باتیں شروع کردی جاتی ہیں ۔ہماری تاریخ میں کوئی بھی ایسا الیکشن نہیں جس پر دھاندلی کے الزامات نہ لگے ہوں۔

8فروری 2024کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھانا شروع کردیے تھے بلکہ اس نے انتخابات رکوانے کی بھی پوری کوشش کی تھی ، الیکشن کمیشن نے بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ ماضی کی غلطیاںکسی صورت دوبارہ نہیں دہرائی جائیں گی ۔لیکن 2024کے انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات لگے اور جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

انتخابات کی شفافیت کو جانچنے کے لیے ہم دو حصوں میں بات کو سمجھ سکتے ہیں ۔ پہلی بات پری پول یعنی انتخابات سے پہلے کے معاملات ، انتخابات کے دن کے معاملات اور پھر انتخابات کے بعد کے معاملات کو دیکھنا ہوگا۔ دوسرا نقطہ لیول پلینگ فیلڈ یا سب جماعتوں یا فریقین کے لیے سازگار او ریکساں ماحول کو یقینی بنانا ہوتا ہے ۔ یہ ذمے داری الیکشن کمیشن ، وفاقی اور صوبائی نگران حکومتوں کی ہوتی ہے ۔

پری پول ریگنگ کا مطلب الیکشن سے قبل ایسے اقدامات کرنا جو........

© Express News


Get it on Google Play